بھارتی اداکار، کامیڈین و سیاستداں گرپریت سنگھ وڑائچ المعروف گرپریت گوگی نے کہا کہ دونوں اطراف کے پنجابیوں میں فلموں سے قربت پروان نہیں چڑھی بلکہ کلچر کی وجہ سے دونوں جانب کے پنجاب میں پہلے سے ہی اپنائیت ہے جو ہمیشہ موجود رہے گی۔ ہم چڑھدا اور لیندا پنجاب کہہ تو دیتے ہیں لیکن مجھے تو ایک ہی پنجاب نظر آتا ہے۔ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم فنکار اکھٹے کام کریں۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار برمنگھم میں جنگ سے بات کرتے ہوئے کیا، انکا کہنا تھا کہ ہمارا رہن سہن، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور بولی ایک جیسی ہے تو پھر ہم نے چڑھدا اور لیندا پنجاب کہہ کہہ کر لڑدا پنجاب کیوں بنا دیا ہے؟ ہمیں چاہیئے کہ ہم دونوں جانب کے پنجاب کو جوڑ کر اِسے ایک پنجاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔گرپریت گوگی نے کہا کہ دونوں اطراف کے پنجابی آپس میں ملنے کو ترستے ہیں، ایک دوسرے کے شہروں اور گاؤں کو دیکھنا چاہتے ہیں، میں پاکستان میں اپنے آبائی گاؤں کُلا منڈھیالا ضلع نارووال ہو کر آیا تھا وہاں مجھے جو محبت ملی وہ میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکوں گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف کے پنجابی فنکاروں کا آپس میں مل کر پنجابی فلموں کے بنانے کا سلسلہ بیس پچیس سال پہلے سے جاری ہے جب ہم نے پنجابی فلم پنڈ دی کُڑی بنائی تھی جس میں طارق جاوید، اشرف راہی، شیبا بٹ اور وینا ملک نے پاکستان سے حصہ لیا تھا۔انڈین پنجاب کے چاچا رونقی اور جسپال بھٹی میرے پسندیدہ فنکار ہیں جبکہ میں نے بچپن میں پاکستانی فنکار شوکی خاں کی کیسٹ سن سن کے اپنے فن کا آغاز کیا تھا بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ فنکار بننے کی خواہش کا پیدا ہونا ہی اُس کیسٹ کی وجہ سے تھا۔ موجودہ فنکاروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اداکار سہیل احمد عزیزی کی اداکاری سے بہت متاثر ہوں، وہ بڑے ورسٹائل اداکار ہیں، انہوں نے کہا کہ میں سہیل احمد کو اپنا دوست نہیں سمجھتا کیوں کہ دوست سمجھوں گا تو بات برابری تک آ جائے گی اور میں اُن کے برابر نہیں آنا چاہتا۔54 سالہ پنجابی اداکار نے کہا کہ سہیل احمد سے میری عقیدت کا یہ عالم ہے کہ میں اُن کی بیٹی کی شادی میں شمولیت کےلیے پاکستان گیا، وہاں مجھے فیصل آباد جانے کا موقع بھی ملا تھا۔ دونوں اطراف کے پنجاب کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ایک جیسے کلچر کو پروموٹ کرنے کےلیے پالیسیاں بنائیں تاکہ سرحدوں کے دونوں طرف پنجاب کے باسیوں کا میلہ لگا رہے۔
Post your comments