واہ واہ کیا ہی خوب تحریر ہے۔ آئیے ذرا نظر تو ڈالیں
“کسی درویش سے کسی ایک بار سوال کیا کہ عشق حقیقی اور عشق مجازی میں کیا واضح فرق ہے ۔ دونوں عشق ہی تو ہیں اور
دونوں میں چاہا جانا ہی تو شرط ہے؟
درویش مسکرایا اور مٹی کے گھڑے سے ٹھنڈے پانی کا پیالہ نکال کر مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگا : بھولے شاہ ! عشق حقیقی اور عشق مجازی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے ۔
عشق مجازی کیا ہے ۔ تم کسی انسان کے عشق میں پاگل ہوئے جاتے ہو ۔
چلو ہو گیا عشق
اب کیا ہو گا؟
کوئی تمہارے محبوب کی طرف دیکھے تو برا لگے گا ۔ کوئی اس کا عاشق بنے تو اسے قتل کرنے پر تُل جاؤ گے ، کوئی اس سے محبت کی باتیں کرے تو اس داستان گو سے نفرت کرنے لگو گے ۔ عشق مجازی رقیب سے نفرت سکھانے لگتا ہے ۔
عشق حقیقی میں ایسا نہیں ہوتا، یہ تو سراپا عشق ہے ۔ عشق حقیقی میں رقیب سے بھی محبت ہونے لگتی ہے ۔ محبوب کا ذکر کرنے والے کو تلاش کیا جانے لگتا ہے ۔ محبوب کے عاشق سے بھی عقیدت ہو جاتی ہے ۔
عشق مجازی رقیب سے نفرت کا جذبہ ابھارتا ہے لیکن عشق حقیقی رقیب سے قربت پیدا کرتا ہے۔
درویشوں کی محفل میں سبھی رقیب ہی تو ہوتے ہیں۔
ایک محبوب اور باقی سب عاشق ایک ہی محفل میں ہوں اور ہاتھ چومتے جائیں ۔ ۔
کوئی ایک داستان گو محبوب کا ذکر چھیڑے
اس سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرے تو باقی سب سر دھنے لگتے ہیں
عشق حقیقی محبوب سے جڑی ہر چیز میں محبوب دکھلانے لگتا ہے ۔
عشق مجازی میں محبوب سے جڑی چیزیں رکاوٹ معلوم ہونے لگتی ہیں۔
عشق مجازی میں محبوب سنگ دل ہے ، اکڑتا ہے ، ادائیں دکھاتا ہے ، ناز نخرے اٹھواتا ہے اور اکثر چھوڑ جاتا ہے یہاں برہنگی کا سایہ ملتا ہے ۔
عشق حقیقی میں محبوب لپکتا ہے ، قریب آتا ہے اور چاہت میں ماں کی مامتا کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ جاتا ہے ۔
اتنا سا فلسفہ ہے بس عشق کا۔۔۔
عشق حقیقی میں جو لطف ہےمحبوب جانان سے سے ملا دیتا ہےعشق حقیقی دلبر کا ہر ایک ستم سینے سے لگا کر سر آنکھوں پر کیوں کہ حقیقی عشق کے بغیر محبوب جانان سے ملنا ممکن ہی نہیں ہے۔”
Post your comments