class="post-template-default single single-post postid-6468 single-format-standard kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے. عبید اللہ علیم

انٹاریو:محمد نعیم طلعت

وفات :18 مئی:1998ء

 نامور  شاعر  عبید اللہ علیم  12 جون 1939ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیالکوٹ سے نقل مکانی کرکے بھوپال میں آباد ہوگئے تھے۔ اس اعتبار سے ان کی پدری زبان پنجابی اور مادری زبان اردو تھی۔ بچپن سے انھیں اچھے شعر یاد کرنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ میٹرک کے بعد پوسٹ آفس کے سیونگ بینک میں ڈیڑھ سال تک ملازم رہے۔ پھر تقریبا دوسال تک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس میں کام کیا۔ 1959ء سے انھوں نے باقاعدگی سے شعر کہنا شروع کیا۔ عبید اللہ علیم نے کراچی سے اردومیں ایم اے کیا۔ گیارہ سال تک کراچی ٹیلی ویژن میں پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے۔ اپنا ماہ نامہ ’’نئی نسلیں‘‘ بھی شائع کرتے رہے۔ 18  مئی 1998ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’’چاند،چہرہ، ستارہ، آنکھیں‘‘ 1975ء میں شائع ہوا جس پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ویراں سرائے کا دیا‘‘1986ء میں چھپا۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں:’’ نگار صبح کی امیدیں‘‘، ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘(کلیات)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:350

  عبید اللہ علیم صاحب کے اکلوتے فرزند عاطف علیم صاحب برطانیہ میں سکونت پذیر ہیں۔
عبید اللہ علیم کی شاعری سے انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا
اک سبز شاخ گلاب کی تھا اک دنیا اپنے خواب کی تھا
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لیے سب کچھ ہار دیا
یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو جو اس سکھ نے آزار دیا
میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
میں روتا ہوں اور آسمان سے تارے ٹوٹتے دیکھتا ہوں
ان لوگوں پر جن لوگوں نے مرے لوگوں کو آزار دیا
مرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا کے جھونکوں سے
میں خشک پیڑ خزاں کا تھا مجھے کیسا برگ و بار دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹی تھا میں خمیر ترے ناز سے اٹھا
پھر ہفت آسماں مری پرواز سے اٹھا
انسان ہو کسی بھی صدی کا کہیں کا ہو
یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا
صبح چمن میں ایک یہی آفتاب تھا
اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا
سو کرتبوں سے لکھا گیا ایک ایک لفظ
لیکن یہ جب اٹھا کسی اعجاز سے اٹھا
اے شہسوار حسن یہ دل ہے یہ میرا دل
یہ تیری سر زمیں ہے قدم ناز سے اٹھا
میں پوچھ لوں کہ کیا ہے مرا جبر و اختیار
یارب یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اٹھا
وہ ابر شبنمی تھا کہ نہلا گیا وجود
میں خواب دیکھتا ہوا الفاظ سے اٹھا
شاعر کی آنکھ کا وہ ستارہ ہوا علیمؔ
قامت میں جو قیامتی انداز سے اٹھا

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter