یہ پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی ہیں جنہوں نے ان سارے اشعار کا فارسی سے اردو میں بڑی محنت سے ترجمہ کیا ہے۔یہ سب کچھ مجھے ایک مہربان نے ناروے سے بھیجا ہے اور کہ ہے کہ یہ لیں طلعت صاحب آپ کےلئے ایک کالم کا مواد مہیا کیا ہے تو براہِ کرم اسکو اپنے کالم کے توسط سے قائرین تک پہنچائیں۔ تو میں انکی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایسا ہی کر رہا ہوں۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ مجھے بھی اس مواد نے متاثر کیا ہے
“علامہ اقبال نے جاوید نامہ کے یہ اشعار عوام کی زبان اردو میں لکھ دیے ہوتے تو وہ بھی باقی زندگی کینیڈا ، امریکہ وغیرہ میں گزارنے پر مجبور ہو جاتے. انہوں نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار خواص کی زبان فارسی میں کیا،
آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کے وہ کیسے؟
دین حق از کافری رسوا تر است
زانکہ ملا مومن کافر گر است
مطلب: آج دین حق کافری سے بھی زیادہ رسوا ہو چکا ہے کیونکہ ہمارا ملا کافر گر مومن ہے ۔
شبنم ما در نگاہ ما یم است
از نگاہ او یم ما شبنم است
مطلب: ہماری شبنم ہماری نگاہ میں سمندر ہے جبکہ اس کی نگاہ سے ہمارا سمندر شبنم ہے ۔
از شکرفیہائے آن قرآن فروش
دیدہ ام روح الامین را در خروش
مطلب: اس قرآن فروش کی عجیب و غریب باتوں سے میں نے روح الامین جبرئیل کو واویلا کرتے دیکھا ہے ۔
زانسوے گردون دلش بیگانہ ئی
نزد او ام الکتاب افسانہ ئی
مطلب: آج کے ملا کا دل آسمان سے دوسری طرف کی دنیا سے بیگانہ ہے ۔ اسکے نزدیک قرآن پاک محض ایک افسانہ ہے ۔
بے نصیب از حکمت دین نبی
آسمانش تیرہ از بی کوکبی
مطلب: آج کا ملا نبی کریم کے دین کی حکمت سے بے بہرہ ہے ۔ اس کا آسمان ستارے نہ ہونے کی وجہ سے تاریک ہے ۔
مکتب و ملا و اسرار کتاب
کور مادر زاد و نور آفتاب
مدرسہ اور ملا اور قرآن کے اسرار کچھ اس طرح ہیں جیسے کوئی مادر زاد اندھا اور سورج کی روشنی ہو ۔
دین کافر فکر و تدبیر جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
کافر کا دین تو غور و فکر اور تدبیر جہاد ہے اور ملا کا دین خدا کے واسطے کا فساد ہے ۔”
میں تو آخر میں اس پہ اپنا تبصرہ کرتے ہوئے یہی کہہ سکتا ہوں کہ
بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رُسوائی کی۔
Post your comments