ہو سکتا ہے یہ بات کچھ عجیب سی لگے کہ ہمارے دولہا پھر سہرہ باندھنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں
سہرہ جس میں پھول بھی شامل ہوتے تھے اس ایسے سہرہ باندھنے کا رواج تقریبا 30 40 سال سے کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے خاص طور پر پاکستان سے باہر امریکہ اور یورپ میں تو جہاں پھولوں کی سہرے کی لڑیوں کی صورت میں ملنا کافی مشکل ہے یہ چیز اب معدوم سی ہو گئی ہے
اج کل کے کینیڈین یا امریکن دولہا تو ارام سے ایک چادر اوڑھے ہاتھ ہلاتے ہیلو ہائے کرتے ہوئے اتے ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا تھوڑی دیر بعد کہ اس میں سے دولہا کون ہے اور دولہے کا بھائی کون ہے ، ویسے بھی اج کل کلین شیو کی بجائے ہلکی داڑھی رکھ کر سارے ہی نوجوان ایک جیسے لگنے لگے ہیں
مجھے یہ سب کچھ تحریر کرنے کی ضرورت اس لیے پیش ائی کہ پچھلے ہفتے میں نیو جرسی اپنے ایک دوست کے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں گیا
میرے جس دوست کے بیٹے کی شادی تھی وہ دوست اپنے زمانے کے کافی ماڈرن تھے اور اپنی شادی کے اوپر بھی انہوں نے سہرہ وغیرہ نہیں باندھا تھا پتہ نہیں کلاہ تھوڑی دیر کے لیے پہن لیا تھا یا نہیں
۔ لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ جب ان کے بیٹے کی شادی میں ان کا بیٹا سہرے میں پھولوں کا سہرا تو نہیں باندھ سکا لیکن اس نے پگڑی یا کلاہ ضرور پہنا ہوا تھا اور گلے میں ایک پھولوں کا ہار بھی تھا جو اس نے جلدی اتار دیا لیکن مزید حیرت میں اضافہ اس وقت ہوا جب میرے دوست نے باقاعدہ ایک شاعر کا لکھا ہوا بڑا سارا سہرہ نکالا اور اسے پڑھنے کے لیے تیار ہوگئے
اور تقریبات کے سلسلے میں جب تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا تو میرے دوست نصیر صدیقی نے باقاعدہ مائیک لے کر پہلے تو سہرہ جو کہ شاعری کی قسم ہے اس پر روشنی ڈالی کہ کس طرح اج سے کئی سال پہلے شاعری کے ذریعے سہرہ جو کہ دلہن کو اور دولہا دونوں کو باندھا جاتا تھا جس میں پھولوں کی کلیاں اور لڑیاں ہوتی تھیں ان کا حوالہ دے کر باقاعدہ نظم کی جاتی تھی
جس میں دعائیہ کلمات ہوتے تھے اور یہ اردو زبان میں ہوتا تھا
جب میرے دوست نے وہ سہرہ پورا پڑھا جو کہ کافی اچھا تھا۔ بجا طور پر اس کے اندر جو اہم جز ہیں وہ ضرور تھے یعنی دولہا کے تمام قریبی رشتہ داروں چچا خالہ خالو ماموں ممانی ان سب کے نام تھے ان کی طرف سے دولہا کو سہرے کی مبارکباد تھی نیک تمنائیں تھی
اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے کلچر کے اندر پھولوں کی لڑیوں سے بھرا ہوا سہرہ ایک بہت ہی خوبصورت رسم ہے جس کے ذریعے ایک تو دولہا خاص طور پر ایسا لگتا ہے کہ اس کے اندر کچھ حجاب کچھ جھجک اور کچھ ایسا کچھ خاص ہے کہ وہ اپنے تمام دوستوں اور دیگر شرکا میں ممتاز نظر اتا ہے خواہ اس کی صورت شکل واجبی سے ہی کیوں نہ ہو
پھولوں کا سہرا عموما دولہا گھر سے پہن کر بارات کے ساتھ دلہن کے گھر تک اتا ہے اور وہاں پر نکاح کے بعد ہٹا دیا جاتا ہے
جبکہ دلہن جب رخصت ہوتی ہے تو اس وقت اس کو سہرہ باندھا جاتا ہے جو وہ اپنے سسرال انے کے بعد اتار دیتی ہے
خیر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرا وہ دوست جو کہ عام طور پر ان چیزوں کو پسند نہیں کرتا تھا اپنے زمانے میں اج اپنے بیٹے کی شادی کے زمانے میں اس سہرے کو ان اشعار کو اور اس حرمت کو یاد کر رہا ہے
میں نے جب تقریب کے دوران نیو جرسی کے دیگر مہمانوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ اہستہ اہستہ ایسا رجحان ا رہا ہے کہ دولہا کے ساتھ کچھ امتیازی لباس ہی نہیں بلکہ کچھ اس کی شخصیت میں ایسا نمایاں ہونا چاہیے کہ وہ دولہا منفرد لگے تو اس سلسلے میں سہرے کے پھولوں کا انتظام کیا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انے والے چند ماہ یا چند سال میں باقاعدہ پھول بھی دستیاب ہو جائیں گے اور دولہا سہرا باندھنے لگے گا
لیکن میں یہاں اپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دسمبر میں میرے بھتیجے کی پاکستان میں شادی تھی اور میں کئی شادیوں میں پاکستان جا چکا ہوں اور وہاں بھی یہی ہو رہا ہے کہ دولہا ایک پگڑی پہنے ہاتھ ہلاتے ہوئے مٹکتے ہوئے اتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد کہیں ہنگاموں میں گم ہو جاتے ہیں یا پھر کہیں سب کے ساتھ رقص کرتے ہوئے نظر اتے ہیں
لیکن میرے بھتیجے نے میری بات مانی اور اس سے زیادہ اس کے دوستوں نے اس کے ساتھ تعاون کیا اور راولپنڈی میں اسلام اباد کے قریب کہیں نہ کہیں سے وہ پھولوں کا سہرہ خرید لائے اور میرے بھتیجے نے اپنی شادی کے دن سہرہ باندھا اور پھولوں کی لڑیوں کے سائے تلے وہ اپنے زندگی کے بہترین سفر پر روانہ ہوا
میں نے اس وقت ایک چھوٹی سی تقریر کی تھی جس میں سہرے کی اہمیت اور سہرے کی خوبصورتی اور کلچر پر اس کے اثرات پر بات کی تھی
کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے کلچر کی ان خوبصورتیوں کو ضرور ساتھ لے کے چلنا چاہیے جن کے ذریعے لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں دوسری دنیا کے لوگ بھی ہمیں ایسے دیکھیں کہ ہم ہم لوگ تشدد اور دیگر مار پیٹ جہاد وغیرہ جیسی چیزوں سے ہی نہیں بلکہ پھولوں کی طرح خوبصورت سہرے پڑھتے ہی نہیں ہیں بلکہ باندھتے بھی ہیں
اب میں تکنیکی طور پر بھی سوچ رہا تھا کہ جس طرح فیشن اور موسم بدلتے جا رہے ہیں اب پتلونوں نے جن کی موریاں بہت پتلی ہوئی تھیں اب دوبارہ چوڑی ہونے لگی ہیں اور یقینا اگلے چند سالوں میں بیل باٹم دوبارہ ا جائے گا اس طرح سہرے کو جو پچھلے 30 40 سال میں اتار کے پھینکا گیا ہے بے دردی کے ساتھ اہستہ اہستہ مجھے اس کا واپس انا نظر ارہا ہے
پاکستان میں تو گلبرگ کے پھول بازار کراچی یا لاہور کی پھول منڈی یا ملتان کے بانو بازار میں ابھی بھی پھولوں کی بے شمار دکانیں ہیں جہاں پر سہرے تیار ہو رہے ہیں
ہم اپنے نوجوانوں سے جہاں بہت زیادہ علم حاصل کرنے ترقی حاصل کرنے ٹیکنالوجی کی تربیت حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں وہاں ہمیں انہیں اپنے کلچر کی طرف راغب ہونے کا بھی مشورہ دینا چاہیے اور ہم سب کو خود بھی یہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنے کلچر کو زندہ رکھیں گے اور اپنی شادی بیاہ کی تقاریب کو جس پر بے دردی سے خرچہ کیا جاتا ہے اپنے دولہا اور دلہن کو سہروں کے ساتھ بھی سنواریں گے
Post your comments