class="wp-singular post-template-default single single-post postid-15957 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

ٹرمپ کی ٹرمپیاں تحریر: نجیم شاہ

اگر کسی شخصیت کو صرف اُس کی زبان کی تیزی، دماغ کی آزادی اور بالوں کی بے قراری سے پہچانا جائے تو وہ بلا شبہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ سیاست، سفارت، اخلاقیات، تہذیب، صحافت —سب اُن کے سامنے ایسے بیٹھے رہتے ہیں جیسے اُستاد کے سامنے طالبعلم۔ باقی دُنیا سوال کرتی ہے، ٹرمپ جواب نہیں دیتے — بیان دیتے ہیں۔ اور ایسا بیان کہ جملے کے آخر میں قہقہہ، حیرت اور تھپکی تینوں خود بخود شامل ہو جاتے ہیں۔ موصوف کے ہر خطاب میں ایسا تاثر ہوتا ہے جیسے وہ کوئی سچ بولنے نہیں آئے، بلکہ سچ کا گریبان پکڑ کر اُسے مائیک پر گھسیٹنے آئے ہوں۔ ایسا بندہ جو اپنی زبان سے ٹینک کا کام لیتا ہے اور دلیل کو کچل کر آگے بڑھتا ہے، وہی ٹرمپ ہیں۔ بے باکی اگر کسی شخصی مجسمے میں ڈھالی جائے تو وہ یہی شخصیت ہو گی — سونے کی دیواروں، نارنجی چہرے، اور خالص اعتماد کے ساتھ۔
ٹرمپ کی سیاست میں جو مزاح ہے، وہ کسی فلمی سکرپٹ سے کم نہیں۔ کہیں وہ اپنے مخالفین کو ’’لوزر‘‘ کہہ رہے ہیں، تو کہیں پوری صحافتی برادری کو ’’فیک نیوز‘‘ کے طلسمی خانے میں پھینک رہے ہیں۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن کے بیانات صرف بے باک نہیں، اکثر بے بنیاد بھی ہوتے ہیں — لیکن ایسے انداز میں کہ سننے والا کبھی کبھار سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے: ’’کہیں یہ بندہ صحیح تو نہیں؟‘‘۔ ٹرمپ کی باتوں میں وہی کشش ہے جو بچپن میں ہینڈ پمپ کے نیچے سے ٹھنڈا پانی پینے میں ہوتی تھی — خطرہ بھی، مزہ بھی، اور بعد میں لازمی پیٹ خراب بھی۔
اب لیجیے، اُن کی مشہور زمانہ ’’دیوار‘‘ والی مہم کو ہی لے لیجیے۔ کسی نے پوچھا، ’’جناب! یہ دیوار میکسیکو کے ساتھ کیوں؟‘‘۔ بولے: ’’تاکہ وہ ادھر نہ آئیں!‘‘۔ پوچھا، ’’کون؟‘‘۔ کہا: ’’سب!‘‘۔ پھر مزید وضاحت فرمائی: ’’دیوار اتنی خوبصورت ہو گی کہ میکسیکو والے خود آ کر کہیں گے، ہمیں اس کی قیمت ادا کرنے دیں!‘‘۔ بندہ پوچھے، یہ دیوار ہے یا شادی کی شاپنگ؟ اور پھر میکسیکو والوں نے کیا کیا؟ وہ ہنسے، اور باقی دُنیا کے ساتھ مل کر ہنستے رہے۔ مگر ٹرمپ کے چہرے پر وہی اٹل خوداعتمادی رہی جیسے کوئی بچہ مٹی کی روٹی بنا کر ماں کو زبردستی کھلانے پر تُلا ہو۔
ٹرمپ کی سب سے بڑی ’’ٹرمپ‘‘ یہ ہے کہ وہ جو بھی کہہ دیتے ہیں، اُسے سچ مان کر، نہ صرف خود اس پر یقین کر لیتے ہیں بلکہ توقع رکھتے ہیں کہ باقی دُنیا بھی آنکھ بند کر کے اُسے مان لے۔ ایک دفعہ کسی صحافی نے سوال کیا: ’’آپ کو طب، تاریخ، جغرافیہ، یا معیشت میں کتنا علم ہے؟‘‘۔ جواب آیا: ’’مجھے سب سے زیادہ علم ہے۔ کسی کو بھی مجھ سے زیادہ کچھ نہیں پتا!‘‘۔ اور دل کے کسی کونے سے آواز آئی: ’’یقیناً، اسی وجہ سے دُنیا بھر کے ماہرین آج بھی چپ چاپ پنکھے کے نیچے بیٹھ کر سر پکڑے سوچ رہے ہیں کہ کہاں غلطی ہوئی!‘‘
اور ٹرمپ کے اندازِ خطابت کا کیا کہنا! جہاں دُوسرے لیڈر تقریر میں اعداد و شمار، شواہد اور پالیسی کا ذکر کرتے ہیں، وہاں ٹرمپ کی تقریر ایسے ہوتی ہے جیسے کوئی دوست چائے کی دکان پر بیٹھ کر ساری دُنیا کے مسائل کا حل سگریٹ کے کش کے ساتھ پیش کر رہا ہو۔ کبھی وہ کہتے ہیں، ’’میں نے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنایا‘‘، کبھی کہتے ہیں، ’’میں امریکہ کا سب سے ذہین صدر ہوں‘‘، اور پھر کبھی فرماتے ہیں، ’’باراک اوباما نے میرے فون ٹیپ کیے تھے‘‘۔ سننے والے پہلے چونکتے ہیں، پھر ہنستے ہیں، اور آخرکار سر جھکا کر کہتے ہیں: ’’بندہ ہے بڑا کریئیٹو‘‘۔
یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ٹرمپ کی شخصیت میں وہ سب کچھ ہے جو کسی دیسی سیاستدان کے خوابوں کا کُل اثاثہ ہو سکتا ہے — نہ کوئی شرمندگی، نہ کسی الزام کی پروا، نہ تاریخ کا بوجھ، نہ جغرافیے کا خوف، اور نہ زبان پر لگام۔ دل میں آیا، بول دیا۔ دماغ نے نہیں سوچا، تو کیا ہوا؟ الفاظ نے اثر کر دیا۔ ان کے جملے کسی لطیفے کی طرح ہوتے ہیں—سمجھ آ جائے تو بھی قہقہہ، نہ آئے تو بھی قہقہہ۔
الغرض، ٹرمپ کی ٹرمپیاں آج کی دُنیا کی وہ حقیقت ہیں جس پر ہنسا بھی جا سکتا ہے، رویا بھی، اور سوچا بھی۔ وہ ایک ایسا مزاحیہ کردار ہیں جو حقیقت میں موجود ہے، جو سچ کو جھوٹ، اور جھوٹ کو مزاح کے سانچے میں ڈھالنے کا فن جانتا ہے۔ وہ دُنیا کی سیاست میں اس لطیفے کی مانند ہیں جسے سن کر بندہ قہقہہ لگاتا ہے، مگر اندر سے کہتا ہے: ’’یار، بات تو سچ ہے‘‘۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter