اخوند محمد سالاک غازی کا تعارف اس قلمی نسخے میں ایک خدا شناس، صاحبِ سلوک، اور علمِ ظاہر و باطن میں کامل بزرگ کے طور پر ہوتا ہے۔ وہ قریۂ بہادر (حاجی بہادر کوہاٹی کی بستی) میں مقیم تھے، جو شہر کے قریب واقع تھا، اور جہاں وہ نظامت کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے تھے۔ اُن کی مجلس میں داخلہ کسی نسب یا شہرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اخلاص، طلب، اور سوزِ دل کی شرط پر ہوتا تھا۔ وہ ہر آنے والے کو بلا عذر راہِ حقیقت کی طرف رہنمائی دیتے تھے، اور اُن کی تربیت تحقیق و انفصال کے ذریعے ہوتی تھی — یعنی وہ ظاہر و باطن کی تمیز، نیت کی صفائی، اور عمل کی صداقت پر زور دیتے تھے۔
فارسی قلمی کتاب میں ایک اہم واقعہ مناظرے کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے، جس میں اخوند سالاک کی علمی بصیرت اور روحانی وقار نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ ایک افغان زائر، جو غیر متوقع طور پر وارد ہو کر علمی بحث میں شریک ہوا اور اُس نے ایسے سوالات اُٹھائے جن کا جواب دینا بعض علماء کیلئے دشوار ہو گیا۔ اِس موقع پر کہا گیا کہ اگر اخوند غازی (یعنی اخوند سالاک) موجود ہوتے تو بفضلِ خدا، وہ شیخ کو لاجواب کر دیتے۔ یہ بات حضرت مخدوم و محبوب (حاجی بہادر کوہاٹی) تک پہنچی، جنہوں نے نواب محبت خان کو پیغام دیا کہ اخوند اللہ داد کو فوراً روانہ کیا جائے تاکہ وہ اس علمی مجلس میں شریک ہو کر حقائق کی وضاحت کرے۔
اخوند اللہ داد بلا تاخیر روانہ ہوئے، مگر اخوند محمد سالاک ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے وطن (علاقۂ یوسفزئی) کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ اُن کی روانگی پر مجلسِ علم و مناظرہ میں گہرا افسوس ظاہر کیا گیا، کیونکہ اہلِ مجلس کو یقین تھا کہ اگر وہ موجود ہوتے تو اس علمی معرکے میں حق کی وضاحت اور باطل کی تردید پوری قوت سے ممکن ہو جاتی۔ اس موقع پر متعدد اہلِ علم نے کہا کہ اخوند سالاک کی غیر موجودگی نے ایک روحانی خلا پیدا کر دیا ہے، اور اگر اُن کی یہاں واپسی سے قبل کوئی علمی حقیقت ظاہر نہ ہوئی، تو یہ افسوس ہمیشہ دلوں میں باقی رہے گا اور اس مجلس کی تاثیر ادھوری محسوس ہوگی۔
مناظرے کی مجلس میں ہزاروں علماء، طلبہ، اور عام لوگ جمع ہوئے تاکہ اخوند اللہ داد اور افغان زائر کی گفتگو سن سکیں۔ اس علمی معرکے میں سوالات، جوابات، اور دلائل کا تبادلہ ہوا، مگر کوئی بھی فریق مکمل طور پر غالب نہ آ سکا۔ یہاں تک کہ ایک صاحبِ علم نے اشارہ کیا کہ حقائق و معارف کی اصل وضاحت اخوند محمد سالک جیسے صاحبِ عرفان ہی کر سکتے ہیں۔ اُن کی علمی حیثیت اِس قدر مسلم تھی کہ اُن کے بارے میں کہا گیا: وہ خدا شناس، عارف، اور علمِ ظاہر و باطن میں کامل ہیں۔ اُن کی آمد طالبانِ حق کے لیے باعثِ فیض ہوتی ہے، اور اُن کی تحقیق سچائی کی راہ پر روشنی ڈالتی ہے۔
مناظرے کے دوران اخوند اللہ داد نے اخوند سالاک کی غیر موجودگی میں اُن کا علمی مؤقف پیش کیا۔ جب افغان زائر نے کہا کہ اسے مزید مطالعے کی ضرورت نہیں، تو اخوند اللہ داد نے فرمایا کہ مطالعہ تو تم نے کیا ہے، مگر سچائی تمہارے اندر نہیں اُتری۔ اس پر حاضرین میں شور اُٹھا، اور گواہی دی گئی کہ اخوند محمد سالاک ہی وہ شخصیت ہیں جو اس مقام پر حق کو واضح کر سکتے تھے۔ اُن کی علمی عظمت اور روحانی گہرائی اِس مناظرے کے تناظر میں مزید نمایاں ہو گئی۔ ’’آئینہ تصوف‘‘ از خواجہ حسن رامپوری کے مطابق اخوند اللہ داد سلسلہ سہروردیہ میں اخوند سالاک سے بیعت تھے۔
اخوند محمد سالاک کا ذکر اس قلمی کتاب میں نہ کسی بلند بانگ دعوے کے ساتھ آیا، نہ کراماتی مظاہر یا ظاہری جلوؤں کے ساتھ، بلکہ ایک خاموشی، ایک وقار، اور ایک سوز کے ساتھ سامنے آیا۔ وہ نہ منصب کے خواہاں تھے، نہ شہرت کے متلاشی، بلکہ صرف اس مقام کے طالب تھے جہاں عشق کا دروازہ نسب یا نام سے نہیں، دل کی صفائی اور نیت کی صداقت سے کھلتا ہے۔ اُن کی عظمت اسی بے طلبی میں تھی، اور اُن کی گمنامی میں وہ جلال تھا جو اہلِ دل پر ہمیشہ آشکار رہا۔ یہی وہ مقام ہے جو تاریخِ طریقت میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
اخوند سالاک کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سلوک کی راہ میں اصل سرمایہ دُنیا سے بے نیازی، دِل کی صفائی اور حق کی طلب ہے۔ وہ ایک فقیر تھے، صاحبِ عرفان تھے — جن کی دُعا میں وہ سوز تھا جو دلوں کو جگا دیتا، اور جن کی تحقیق سچائی کی راہ پر روشنی ڈالتی تھی۔ نہ بولے، نہ مناظرے میں شریک ہوئے، مگر اُن کی غیر موجودگی خود ایک دلیل بن گئی۔ اُن کا فقر، اُن کا عشق، اور اُن کی علمی گہرائی اِس روایت کے روشن پہلو تھے۔ ایسے لوگ ہر دور کے سالک کو راہ دکھاتے ہیں۔ اخوند سالاک واقعی وہ تھے جو بولے نہیں، مگر غالب رہے۔
Post your comments