قبائلی شناخت صرف ناموں کا مجموعہ نہیں بلکہ نسل، تاریخ، ثقافت اور کردار کا آئینہ ہوتی ہے۔ پاکستان کے پشتون اور سادات قبائل میں کئی ایسے نام ہیں جو بظاہر ایک جیسے لگتے ہیں، مگر ان کے پس منظر، نسب اور جغرافیہ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مدیح خیل (مدے خیل)، منداخیل اور مداخیل تین ایسے قبائل ہیں جنہیں اکثر لوگ ایک ہی سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں، حالانکہ یہ تینوں الگ الگ قبیلے ہیں، جن کے جدِ امجد، نسبی شجرہ اور تہذیبی ورثہ جداگانہ ہے۔ ان کی شناخت کو سمجھنا صرف علمی شعور نہیں بلکہ سماجی احترام کا تقاضا بھی ہے۔
مدیح خیل میانگان ایک ممتاز سادات قبیلہ ہے، جس کا نسب امام حسن السبط بن امام علی المرتضیٰ علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ ان کے جدِ امجد سید محمد، عرفِ عام میں مدیح بابا، ایک جلیل القدر بزرگ تھے۔ انہیں پیر مدے باباؒ بھی کہا جاتا ہے، جن کی اولاد پیر خیل (پیران)، مدیح خیل (میانگان) یا مدے خیل کہلاتی ہے۔ مدیح بابا کی بہن سیدہ خزامہ، سید مودود چشتی کی والدہ تھیں، جو چشتی سلسلے کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مدیح خیل میانگان کو خیبر پختونخواہ کے قدیم ترین فاطمی سید خانوادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی روحانی خدمات، علمی مجالس اور تصوف سے وابستگی نے انہیں ایک منفرد مقام عطا کیا ہے، جو آج بھی مردان، شانگلہ، بٹگرام، دیر اور سوات جیسے علاقوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
منداخیل ایک پشتون قبیلہ ہے جو غلجی پشتونوں کی سلیمان خیل شاخ سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے جدِ امجد مندو بابا یا مدو بابا تھے، جن کی نسبت سے یہ قبیلہ منداخیل کہلایا۔ منداخیل بنیادی طور پر بلوچستان کے علاقوں ژوب، لورالائی، قلات اور پشین میں آباد ہیں، جبکہ کچھ خاندان افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بھی موجود ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع جیسے ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور بنوں میں بھی ان کی موجودگی ہے، جہاں وہ مختلف شعبوں میں سرگرم ہیں۔ان کی شناخت بہادری، غیرت اور قبائلی روایات سے جڑی ہوئی ہے۔ منداخیل قبائل پشتون ولی پر سختی سے عمل کرتے ہیں، اور ان کے ہاں جرگہ، ناناوتی، حجرہ اور میلمستیا جیسی روایات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کا تاریخی کردار افغان جنگوں، برطانوی دور کی مزاحمت اور قبائلی اتحاد میں نمایاں رہا ہے۔
مداخیل قبیلہ بھی پشتون ہے، مگر ان کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی عیسیٰ زئی شاخ سے ہے۔ ان کے جدِ امجد مدا بابا تھے، جن کی نسبت سے یہ قبیلہ مداخیل کہلایا۔ مداخیل قبیلہ خیبر پختونخواہ کے ضلع تورغر میں آباد ہے، جو مہابان پہاڑ کی شمالی ڈھلوان پر واقع ہے۔ ان کے علاقے کی سرحدیں حسن زئی، تنولی، امازئی اور دریائے سندھ سے ملتی ہیں۔ مداخیل قبیلہ چار بڑی شاخوں میں تقسیم ہے جن میں حسن باز خیل، بازید خیل، حسن خیل اور دیگر ذیلی خیلیں شامل ہیں۔ یہ قبیلہ بھی پشتون ثقافت کا علمبردار ہے۔ ان کے ہاں قبائلی نظام، جرگہ اور روایتی اقدار کو نسل در نسل منتقل کیا جاتا ہے۔
ان تینوں قبائل کی اکثریتی زبان پشتو ہونے کے باوجود ان کی شناخت ،تاریخ اور نسبی تسلسل بالکل الگ ہے۔ مدیح خیل یا مدے خیل سادات ہیں، منداخیل غلجی (غلزئی) پشتون ہیں اور مداخیل یوسفزئی پشتون ہیں۔ ان کی جغرافیائی آبادکاری بھی مختلف ہے اور ان کے جدِ امجد بھی جدا ہیں۔ ان قبائل کو ایک سمجھنا تاریخی اور سماجی لحاظ سے غلطی ہے، جو نہ صرف علمی سطح پر نقصان دہ ہے بلکہ قبائلی احترام کے اُصولوں کے بھی خلاف ہے۔ ان کی الگ الگ پہچان کو تسلیم کرنا نہ صرف علمی شعور کی علامت ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی کے لیے بھی ضروری ہے۔
قبائلی شناختوں کو درست طور پر سمجھنا ہماری تہذیبی ذمہ داری ہے۔ مدیح خیل (مدے خیل)، منداخیل اور مداخیل تین الگ قبائل ہیں، جن کی روایات، خدمات اور نسبی فخر اس خطے کی ثقافتی میراث کا حصہ ہیں۔ یہ کالم ان شناختوں کو اُجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے، تاکہ تاریخ کی روشنی میں سچائی واضح ہو اور غلط فہمیاں دم توڑ دیں۔ ان قبائل کی حقیقت کو جاننا نہ صرف احترام کا تقاضا ہے بلکہ اس خطے کی تہذیب کو محفوظ رکھنے کی ضمانت بھی۔ ان کی شناختوں کو سمجھنا، تسلیم کرنا اور آگے بڑھانا ہی ہماری علمی اور سماجی بلوغت کی علامت ہے۔
Post your comments