class="wp-singular post-template-default single single-post postid-14816 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

یہ سیلاب نہیں، شرمندگی کا طوفان ہے تحریر: نجیم شاہ

ایک بار پھر بارشیں ہوئیں، نالے بپھرے، دریا چڑھے، زمین نے پانی اُگلا، اور آسمان نے برسنے کا حق ادا کیا۔ نتیجہ؟ 328 اِنسان لقمۂ اجل بنے۔ اِن میں وہ بدنصیب بھی شامل تھے جو شادی کی خوشی منانے نکلے تھے، لیکن موت کی گود میں جا سوئے۔ وہ بدنصیب فیملی بھی شامل ہے جو اپنے رشتہ داروں کے گھر مہمان ٹھہری ہوئی تھی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، نہ آخری۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم ہر سال ایک ہی سانحے کو دہرا کر کیوں زندہ رہنے کا ناٹک کرتے ہیں؟ کیا ہم واقعی قوم ہیں یا صرف ہجوم، جو لاشوں کو گنتا ہے، فوٹیج بناتا ہے، اور پھر اگلے حادثے کا منتظر رہتا ہے؟

ہم ہر سال مرنے والوں کو اعداد و شمار میں بدل کر خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں۔’’قدرتی آفت‘‘ کہہ کر تمام جرائم دھو دیئے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ آفات قدرت کی نہیں، ہمارے اپنے اعمال کی پیداوار ہیں۔ ہم نے دریا بیچے، پہاڑ بیچے، ندی نالے بیچے، اور اب جب پانی ہماری دہلیز پر موت بن کر لوٹتا ہے، تو ہم موسمیاتی تبدیلی کی ڈھال لے کر چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس زمین کو ہم نے نوچا، وہی زمین اب ہمارے کفن کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

اِداروں کی حالت زار ایسی ہے کہ دیکھ کر ماتم نہیں، قہقہہ آتا ہے۔ نالے صاف نہیں، تعمیرات بے ہنگم، رہائشی منصوبے پانی کے راستے پر، شادی ہال نالوں کے دہانوں پر، اور سیاحتی مقامات پر نہ آگاہی ہے، نہ تحفظ۔ جب حادثہ ہوتا ہے تو صرف ہیلی کاپٹر اُڑتے ہیں، میڈیا گھنٹیاں بجاتا ہے، اور وزراء رٹے رٹائے بیانات دہراتے ہیں: ’’ہم متاثرین کے ساتھ ہیں‘‘۔ پھر سب کچھ ختم۔ دوبارہ وہی غفلت، وہی خاموشی، اور وہی بے حسی۔

یہاں اِنسان کی زندگی کا مول اب آٹے  کے تھیلے سے بھی کم ہو چکا ہے۔ موت کی خبر ریٹنگ کا ذریعہ بن چکی ہے، اور جنازے کے سائے میں موبائل کیمروں کی چمک دیکھ کر لگتا ہے جیسے مرنے والے بھی اب تفریح کا سامان ہیں۔ ہم اِس حد تک گِر چکے ہیں کہ سچ بولنے والے کو منفی سوچ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ جو سوال اُٹھائے، وہ معاشرتی نفرت کا نشانہ بنتا ہے، اور جو خاموش رہے، وہ ’’باشعور‘‘ مانا جاتا ہے۔

مسئلہ باہر کا نہیں، اندر کا ہے۔ نہ نیت ہے، نہ صلاحیت، اور نہ ہی کوئی اجتماعی احساسِ جرم باقی بچا ہے۔ ہم نے تسلیم کر لیا ہے کہ کچھ بدلنے والا نہیں، اِس لیے اب صرف اگلے سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہمیں صرف یہ جاننا ہوتا ہے کہ اِس بار کون سا پُل گرا، کس کا گھر بہا، کس خاندان کا صفایا ہوا۔ پھر ہم اپنی چائے کی چسکی لیتے ہیں، سوشل میڈیا پر میمز دیکھتے ہیں، اور اگلی تباہی کے لیے خود کو تیار کر لیتے ہیں — ایسے جیسے بکری قصاب کے سامنے خاموش کھڑی ہو۔

اگر آج بھی ہم نہ جاگے، تو یاد رکھیں، تاریخ بھی ہمیں یاد رکھنے سے انکار کر دے گی۔ وہ قوم جو ہر سال دفن ہوتی ہے اور اگلے سال زندہ ہونے کا ناٹک کرتی ہے، اُسے نہ عزت ملتی ہے، نہ وقار، نہ بخشش۔ سوال یہ نہیں رہا کہ ہم کب ڈوبیں گے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم جینے کے لائق بھی ہیں یا نہیں؟ اور جب جواب نفی میں ہو، تو باقی ہر بحث فضول ہو جاتی ہے۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter