فلسفہِ عدم تولید کا یہ نظریہ کہتا ہے کہ نئے انسان کو دنیا میں لانا اخلاقاً غلط ہے تحریر :نعیم طلعت

“  فلسفہِ عدم تولید  کا یہ نظریہ کہتا ہے کہ نئے انسان کو دنیا میں لانا اخلاقاً غلط ہے کیونکہ زندگی ناگزیر طور پر درد، تکلیف، ناانصافی اور موت سے بھری ہے، اور جو پیدا نہیں ہوتا وہ ان تمام دکھوں سے ہمیشہ محفوظ رہتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق خوشی محدود اور عارضی ہے جبکہ تکلیف گہری اور یقینی، اس لیے عدم وجود کو وجود پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ نقطۂ نظر جدید فلسفی ڈیوڈ بیناٹر نے مضبوط بنیادوں کے ساتھ پیش کیا، مگر اس کی جڑیں قدیم بدھ مت، یونانی ٹریجڈی اور مایوسی پسند فلسفے میں بھی ملتی ہیں، جہاں پیدا نہ ہونا بہتر قرار دیا گیا۔

فلسفہ عدم تولید کے حق میں لکھنے والوں میں سب سے نمایاں جدید فلسفی ڈیوڈ بیناٹر ہے، جس نے اپنی کتاب :
Better Never to Have Been
میں یہ دعویٰ کیا کہ پیدا نہ ہونا ہمیشہ بہتر ہے کیونکہ زندگی بنیادی طور پر نقصان پہنچاتی ہے۔ اس سے پہلے آرتھر شوبنہاؤر نے دنیا کو “درد اور خواہشات کا کارخانہ” کہہ کر پیدائش کو ایک بوجھ قرار دیا۔ یونانی ڈرامہ نگار سوفوکلیس نے بھی لکھا کہ پیدا ہونا انسان کے لیے سب سے بڑا نقصان ہے اور نہ پیدا ہونا زیادہ بہتر ہے۔ بدھ مت میں بھی زندگی کو دکھ سے بھری سمجھا گیا اور عدمِ پیدائش کو روحانی نجات کے قریب تر مانا گیا۔ یوں مختلف ادوار میں کئی فلسفی اور روایات اس تصور کے قریب رہی ہیں کہ عدم وجود، وجود سے بہتر ہو سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ فلسفۂ عدمِ تولید ایک غلط نظریہ ہے کیونکہ یہ زندگی کو صرف تکلیف کی بنیاد پر پرکھتا ہے اور انسان کے اختیار، خوشی، محبت، رشتوں اور ترقی جیسے مثبت پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ تکلیف کا ہونا کسی زندگی کو اخلاقاً غلط نہیں بناتا، کیونکہ انسان سیکھ کر، محنت کر کے اور سہارا لے کر اپنی تکلیف کم اور خوشی بڑھا سکتا ہے۔ اگر صرف تکلیف کا امکان وجود کے خلاف دلیل بن جائے تو پھر کوئی بھی انسانی عمل، محبت، دوستی، خاندان وغیرہ درست نہیں رہتا، جو غیر منطقی ہے۔
یہ نظریہ اس لیے بھی کمزور ہے کہ یہ انسان کی معنی تخلیق کرنے کی طاقت کو نظرانداز کرتا ہے۔ زندگی پہلے سے طے شدہ سزا نہیں، بلکہ ایسی حالت ہے جس میں انسان خود بہتر راستے بنا سکتا ہے۔ اگر عدمِ وجود اس لیے بہتر ہو کہ وہاں درد نہیں، تو پھر خوشی، ہمدردی، علم اور ترقی جیسی تمام مثبت قدریں بھی بے معنی ہو جائیں گی، جو حقیقت کے خلاف ہے۔ اسی لیے یہ نظریہ غیر متوازن اور دلیل کے لحاظ سے ناکام ہے۔”
آج تک کےلئے اتنا ہی، ملیں گے اگلے ہفتے کسی نئے موضوع کے ساتھ۔

Mohammad Naeem Talat

Ph: 613-330-2926

About the author /


Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *