خدا کے انکار کا فکری دیوالیہ پن از قلم: نجیم شاہ

جاوید اختر اور اس قبیل کے لوگ جب خدا کے وجود پر انکار کا ڈھول پیٹتے ہیں تو حقیقت میں وہ اپنی لاعلمی کو بہادری کا نام دیتے ہیں۔ یہ اعلان کہ ’’خدا نہیں ہے‘‘ دلیل نہیں، یہ ضد ہے، یہ ہٹ دھرمی ہے، یہ عقل کے جنازے پر تالیاں بجانا ہے۔ فلسفے کی دُنیا میں عدم کا ثبوت دینا ممکن ہی نہیں۔ یہ انکار روشنی نہیں بلکہ اندھیرا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ خدا کو کیوں مانا جائے، اصل سوال یہ ہے کہ خدا کے بغیر کچھ بھی کیوں مانا جائے؟

کائنات کو محض حادثہ کہنا عقل کی تذلیل ہے۔ اگر یہ سب کچھ محض اتفاق ہے تو پھر ریاضیاتی ترتیب کہاں سے آئی؟ کائناتی نظم کس نے بنایا؟ اتفاق میں قانون نہیں ہوتا، اور قانون بغیر قانون ساز کے لطیفہ ہے۔ جاوید اختر کی دلیل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ اخبار خود بخود چھپ گیا، پرنٹنگ پریس اور صحافی کی ضرورت نہیں۔ یہ فلسفہ ایسا ہے جیسے اندھے کو رنگوں کی وضاحت کرنا۔

شعور کو دھوکا قرار دینا خود شعور کی توہین ہے۔ اگر انسان محض کیمیائی ردِعمل ہے تو پھر یہ جملہ ’’خدا نہیں ہے‘‘ بھی ایک کیمیائی حرکت ہے، کوئی حقیقت نہیں۔ جو نظریہ اپنے قائل کی عقل کو ہی بے معنی کر دے، وہ نظریہ خودکْش ہے۔ مفتی شمائل کے ساتھ مکالمے میں جاوید اختر کا انکار اپنی ہی زبان کو کاٹنے کے مترادف ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ہی بنیاد کو گرا کر عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کرے۔

اخلاق کو محض معاہدہ کہنا ظلم کو سند دینا ہے۔ اگر خدا نہیں تو نیکی اور بدی طاقت کی پیداوار ہیں۔ اکثریت جو کرے وہی درست۔ پھر ہٹلر اور چنگیز خان سب بری نہیں بلکہ ’’قانونی‘‘ ٹھہرتے ہیں۔ انصاف کا مطالبہ خدا کے بغیر کھوکھلا نعرۂ ہے۔ جاوید اختر جیسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ انصاف، آزادی اور انسانی وقار کے تصورات خدا کے تصور کے سائے میں ہی پروان چڑھے ہیں۔ خدا کو نکال کر یہ سب الفاظ صرف شور رہ جاتے ہیں، معنی نہیں۔

آزادی، انصاف، وقار — یہ سب خدا کے بغیر کھوکھلے نعرے ہیں۔ جاوید اختر کا انکار انسان کو آزاد نہیں کرتا بلکہ اسے مقصد، جواب دہی اور معنی سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ فلسفہ علم نہیں بلکہ فکری بانجھ پن ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے کسی کو سمندر میں دھکیل کر کہا جائے کہ تیرنے کی آزادی ہے۔ آزادی کا مطلب ذمہ داری کے بغیر نہیں، بلکہ جواب دہی کے ساتھ ہے۔

اصل جرأت خدا کو رد کرنا نہیں، اصل جرأت یہ ماننا ہے کہ انسان جواب دہ ہے۔ خدا کے وجود کو ماننا انسان کو ذمہ دار بناتا ہے۔ یہ ماننا کہ ایک دن حساب ہوگا، انسان کو ظلم سے روکتا ہے۔ جاوید اختر کا انکار انسان کو بغاوت کا بہانہ دیتا ہے، مگر یہ بغاوت خود انسان کو بے معنی کر دیتی ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص عدالت کو آگ لگا کر انصاف کی دہائی دے۔

جاوید اختر کی علمی لاعلمی یہ ہے کہ وہ خدا کے بغیر انسان کو معنی دینا چاہتے ہیں۔ مگر یہ ممکن نہیں۔ خدا کے بغیر انسان ایک بے مقصد وجود ہے، ایک حادثہ، ایک دھوکا۔ خدا کو ماننا ہی انسان کو وقار دیتا ہے، شعور دیتا ہے، اخلاق دیتا ہے۔ خدا کے بغیر یہ سب کچھ محض الفاظ ہیں، کھوکھلے اور بے جان۔ یہ ایسا ہے جیسے خالی ڈبہ بجا کر کہا جائے کہ یہ موسیقی ہے۔

بات بالکل دوٹوک ہے: خدا کا انکار فکری دیوالیہ پن ہے۔ یہ انکار انسان کو آزاد نہیں کرتا بلکہ اسے غلام بناتا ہے — غلام حادثے کا، غلام دھوکے کا، غلام طاقت کا۔ اصل آزادی خدا کو ماننے میں ہے، اصل علم خدا کو پہچاننے میں ہے، اور اصل جرأت یہ ماننے میں ہے کہ انسان جواب دہ ہے۔ جاوید اختر کا انکار ایک ضد ہے، ایک لاعلمی ہے، ایک فکری بانجھ پن ہے۔ مکالمے نے یہ حقیقت اور بھی واضح کر دی کہ خدا کا وجود ہی انسان کو معنی دیتا ہے، اور یہی سب سے بڑی دلیل ہے۔

About the author /


Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *