نمرود کا انجام اور ہماری نمرودیت از قلم: نجیم شاہ

طاقت کا نشہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ تخت، تاج، فیصلے اور منصب سب کچھ عارضی ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں طاقت کو مستقل سمجھنے کی بیماری عام ہے۔ حکمران اپنی کرسی کو دائمی سمجھتے ہیں، ادارے اپنے فیصلوں کو حرفِ آخر قرار دیتے ہیں، اور عوام اپنی خاموشی کو حکمت کا نام دیتے ہیں۔ یہ سب مل کر ایک ایسا منظر پیش کرتے ہیں جہاں غرور اور تکبر اجتماعی رویہ بن جاتا ہے۔

حکومتیں سمجھتی ہیں کہ اُن کے فیصلے ناقابلِ شکست ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک معمولی غلطی، ایک چھوٹا سا بحران یا ایک عام شہری کی سچائی ان کے بڑے بڑے دعوؤں کو زمین پر گرا دیتی ہے۔ طاقتور حلقے اپنی گرفت کو فولاد سمجھتے ہیں، لیکن تاریخ بار بار یہ بتاتی ہے کہ فولاد بھی زنگ کھا جاتا ہے۔ عدلیہ جب انصاف کو طاقتور کے حق میں موڑتی ہے تو وہ بھی اپنے مینار پر کھڑی ہوتی ہے، مگر ایک دِن وہ مینار زمین بوس ہو جاتا ہے۔

اصل دشمن باہر نہیں، اندر ہے۔ ہماری ضد، ہماری انا، ہماری بے حسی اور ہماری خود غرضی ہمیں اندر سے کھا رہی ہے۔ ہم بڑے منصوبے بناتے ہیں مگر چھوٹی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہم بڑے خواب دیکھتے ہیں مگر چھوٹے اُصولوں پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جو ہمیں اجتماعی طور پر کمزور کرتا ہے۔

طاقت کا اصل امتحان بڑے دشمن کے سامنے نہیں بلکہ چھوٹی حقیقت کے سامنے ہوتا ہے۔ ایک عام شہری کی آواز، ایک معمولی سوال، ایک چھوٹا سا احتجاج بڑے بڑے نظاموں کو ہلا دیتا ہے۔ مگر ہم ان چھوٹی حقیقتوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی وہ لمحۂ ہے جب ہمارا غرور ٹوٹتا ہے اور ہماری کمزوریاں بے نقاب ہو جاتی ہیں۔

فیصلہ سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کا غرور ہمیشہ اندر سے ٹوٹتا ہے۔ کوئی فوج، کوئی دشمن اور کوئی سازش ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتی جتنا ہماری اپنی بے حسی اور ناانصافی پہنچاتی ہے۔ جب انصاف کمزور ہو، جب عوام کی آواز دبائی جائے، جب طاقت کو خدا سمجھ لیا جائے، تو تباہی باہر سے نہیں بلکہ اندر سے آتی ہے۔

یہ معاشرہ اُس وقت مضبوط ہوگا جب ہم چھوٹی حقیقتوں کو ماننے لگیں۔ جب حکمران اپنی کرسی کو خدمت کا ذریعہ سمجھیں، جب عدلیہ انصاف کو طاقتور کے بجائے کمزور کے حق میں استعمال کرے، جب عوام اپنی خاموشی کو توڑ کر سچ بولیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اجتماعی ذلت سے بچا سکتا ہے۔

طاقت کا غرور وقتی ہے، مگر اس کا انجام ہمیشہ مستقل ہوتا ہے۔ تاریخ ہمیں بار بار یہ سبق دیتی ہے کہ کوئی بھی نظام ناقابلِ شکست نہیں۔ بڑے بڑے دعوے ایک لمحے میں زمین پر گر جاتے ہیں۔ باقی رہتا ہے صرف وہ سبق جو ہمیں جھکنے پر مجبور کرتا ہے۔

ہم سب کے اندر ایک نمرود ہے اور یہی ہماری نمرودیت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو پہچانتے نہیں۔ جب وہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے، تو ہمارا تکبر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ یہی وہ لمحۂ ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ طاقت ہمیشہ ختم ہوتی ہے اور صرف انصاف، سچائی اور عاجزی باقی رہتی ہے۔

About the author /


Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *