گزشتہ ہفتے اسلام اباد ہائی کورٹ کے جج جناب طارق جہانگیری کی ڈگری کو جعلی قرار دے دیا گیا ہے ۔ اور یہ فیصلہ خود اسلام اباد ہائی کورٹ نے کیا ہے جہاں جہانگیری صاحب کے خلاف ایل ایل بی کی ڈگری کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ جعلی ہے ۔ جہانگیری صاحب نے اس سلسلے میں تکنیکی بنیادوں پر اپنی لڑائی ضرور لڑی لیکن ایک دن بھی انہوں نے اپنی ڈگری کو پریس کے حوالے نہیں کیا کسی پریس کانفرنس میں اپنی ڈگری اس کے ساتھ مارکس سرٹیفیکیٹ نہیں دکھائے ۔ تو یہ فیصلہ اگیا اب اس کے مخالفین بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ جہانگیری صاحب کا میلان عمران خان کی طرف تھا اور اس لیے ان کو سزا دی گئی ہے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ جعلی ڈگری رکھنے پر جب سیاست دانوں کے احتساب ہو سکتا ہے عوام کا احتساب ہو سکتا ہے اور اب تو فوجیوں کے ساتھ بھی نرمی نہیں ہے تو جج کس کھیت کی مولی ہے اگر انہوں نے کوئی جعل سازی کی ہے تو وہ سامنے انی چاہیے
اس سے پہلے کہ ہم اس کیس کی گہرائی میں جائیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اخر جج صاحب نے کراچی سے یہ ڈگری کیسے حاصل کی
میں اپ کو 80 اور 90 کی دہائی کا کراچی یاد دلاتا ہوں جب ہم لوگ تو حصول روزگار کے لیے انجینئرنگ میڈیکل فارمیسی یا کوئی ایسی پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کی طرف بھاگتے تھے تاکہ ہمیں جلد ہی روزگار ملے اور ہمیں اپنے گھر کا پیٹ بھریں لیکن ایل ایل بی کے لیے پورے پاکستان سے لوگ ائے ہوئے ہوتے تھے کیونکہ یہاں سے پرائیویٹ ایل ایل بی بھی ہوتا تھا ۔ ایل ایل بی کے پرائیویٹ امتحان میں بمشکل کراچی کے دو فیصد لوگ ہی بیٹھتے ہوں گے باقی سارے لوگ کراچی سے باہر کے ہوتے تھے خاص طور پر خیبر پختون خواہ سے ۔ کیونکہ کراچی کے لوگ تو سمجھتے تھے کہ وکالت کی ڈگری لے کر اپ کو سٹی کورٹ کے اگے ٹائپریٹر پہ ٹک ٹک کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرنا لہذا وہ تو اس طرف جاتے ہی نہیں تھے ۔۔کچھ لوگ جو اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے وہ ایس ایم لا کالج میں داخلہ لیتے تھے تاکہ وہاں پر کچھ اچھے اساتذہ سے کچھ قانون سیکھیں میں نے بھی اپنے بھائی کے ساتھ ایک زمانے میں ایس ایم لا کالج میں قانون پڑھنے کے لیے داخلہ لیا تھا لیکن وہاں تو نہ تو کوئی کلاس ہوتی نظر ائی اور اور نہ ہی کوئی ٹیچر نظر ایا کیونکہ پرائیویٹ ایل ایل بی نے ریگولر ایل ایل بی کا قلع قمع کر دیا تھا۔ زیادہ طلبہ نقل کر کے کتابیں بغل میں دبا کے باقاعدہ ممتحن کو دھمکیاں دے کر امتحان دیا کرتے تھے اور پاس ہو جایا کرتے تھے
اس کے ساتھ ہی اردو کالج گلشن اقبال کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور وہاں پر قانون کی اعلی ڈگری یعنی ایل ایل ایم بھی شروع ہو گئی اب تو نقل کر کے پاس ہونے والے ایل ایل بی طالب علموں نے قانون کی اعلی ترین ڈگری بھی ارام سے حاصل کرنا شروع کر دی ۔
اردو کالج میں امتحان میں نے بھی دیے ہیں جب میرا ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز کا سینٹر پڑا تھا اور وہاں پر نقل دیکھ کر مجھے اپنے اوپر غصہ ایا تھا جو موٹی موٹی کتابیں پڑھ کے روزانہ امتحان دینے اتا تھا ۔
تو جہانگری صاحب بھی جن کا تعلق ہزارہ خیبر پختون خواہ سے تھا وہ بھی 90 کی دہائی میں ایل ایل بی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے یہاں پہنچ گئے تھے اب میں اندازہ لگاتا ہوں اپنے اس دور کے تمام تر تجربے کے ساتھ کہ اخر کیا ہوا ہوگا جو جہانگیری کی ڈگری جعلی ہے
یاد رہے جہانگری صاحب نے عدالت میں کہا ہے اللہ اور رسول کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میری ڈگری اصلی ہے ۔
مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی ڈگری اصلی ہے ان کی ڈگری پہ باقاعدہ ان کے نام کے ساتھ ایل ایل بی لکھا ہے لیکن وہ اس کو دکھا نہیں سکتے کیوں نہیں دکھا سکتے میں اپ کو بتاتا ہوں
کہانی یہ ہے کہ جب جہانگیری صاحب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کراچی پہنچے اور یہاں انہوں نے ایل ایل بی میں اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا ، اسلامیہ کالج میں بھی کلاسیں نام کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی تھی اور یہ ایل ایل بی بھی پرائیویٹ کی طرح ہی ہوا کرتا تھا ۔ لیکن جہانگیری صاحب کا کیونکہ اس دور کی چلتی ہوئی طلبہ تنظیموں کے ساتھ تعلق تھا جس کو شاید پی ایس ایف کہتے ہیں گو کہ اس زمانے میں اسٹوڈنٹ تنظیموں پر پابندی تھی جو کہ اج بھی ہے لیکن اس کے باوجود بھی یونیورسٹیز کے اندر یا بڑے کالجوں کے اندر اسلامی جمعیت طلبہ پیپلز پارٹی کی پی ایس ایف اور ممکن ہے کہ 90 کی دہائی ہو تو اس میں ایم کیو ایم کی بھی طلبہ تنظیم موجود ہو ۔ اس میں سے اسلامی جمعیت طلبہ تو کیونکہ کراچی کے تعلیمی اداروں پر طویل عرصہ راج کر چکی ہے تو لہذا اس کے اثرات اج تک جامعہ کراچی میں رجسٹرار کے افس سے لے کر ٹیچروں تک موجود ہیں
خیر جہانگیری صاحب کو اس دور کی اقتدار میں ائی ہوئی جماعت پی ایس ایف سے تعلق رکھنے کی بنا پر نقل کرنے سے کون روک سکتا تھا انہوں نے دھڑلے سے نقل کی ہوگی لیکن کبھی کبھار کوئی مائی کا لال پیدا ہو جاتا ہے جس نے ان کو روکا ٹوکا ہوگا ان کی نقل کے پھرے اور ان کی کاپی سیل کر کے اوپر بھیج دی ہوگی اور پھر انکوائری ہوئی ہوگی اور انکوائری کے بعد ان کو تین سال کے لیے نا اہل کر دیا گیا ہوگا
تین سال کے لیے نا اہل ہونا کوئی عجوبہ نہیں تھا کراچی یونیورسٹی سے خاص طور پہ ایسی اطلاعات سامنے اتی رہتی تھیں اور طلبہ کے پاس اس کے حل تھے اور وہی حل جہانگیری صاحب نے استعمال کیا
جب کسی کو تین سال کے لیے امتحان میں بیٹھنے کے لیے نااہل قرار دیا جاتا تھا تو اس کا ایڈمٹ کارڈ بھی جمع کر لیا جاتا تھا اور اس طرح ایڈمٹ کارڈ کے اوپر تین سال کے لیے بین کرنے کی مہر لگا دی جاتی تھی اور فائل داخل دفتر ہو جاتی تھی
اب جہانگیری صاحب نے جو کیا وہ یہ کیا کہ اگلے سال انہوں نے اپنے انرولمنٹ نمبر کے تحت دوبارہ داخلہ کا فارم بھر دیا یاد رہے کہ انرولمنٹ ایک الگ چیز ہے اور رول نمبر کا کارڈ ایک الگ چیز ہے انرولمنٹ پورے کورس کے لیے ہوتا ہے چاہے اس کورس کو اپ دو سال میں مکمل کریں یا پانچ سال میں مکمل کریں ۔ جہانگیری صاحب کے اوپر جو پابندی تھی وہ ان کے رول نمبر والے ایڈمٹ کارڈ کے اوپر لگی ہوئی مہر کے تحت تھی اور انہوں نے اگلے سال پرانے انرولمنٹ کے تحت اپلائی کر دیا اور ان کو ایڈمٹ کارڈ مل گیا اور وہ امتحان میں بیٹھ گئے ہو سکتا ہے اس مرتبہ نقل نہ کی ہو تاکہ پکڑائی میں نہ ا جائیں ۔
اس طرح انہوں نے جیسا تیسا ایل ایل بی کر لیا اور اس کے بعد ان کے لیے تو ساری دنیا کے راستے کھلے ہوئے ہیں پیچھے سے پیپلز پارٹی کی حمایت اگے اثر رسوخ تو یہ وکالت بھی کر لی جج بھی بن گئے اٹارنی جنرل بھی بن گئے اور پتہ نہیں کیا کیا عہدے مل گئے لیکن ہماری ایجنسیاں ایسے لوگوں کے پیچھے ہمیشہ ہوتی ہیں ۔۔
جب بھی کسی کو کوئی افس الاٹ ہوتا ہے میرا مطلب ہے کسی ذمہ دار عہدے پہ بھرتی کیا جاتا ہے تو ایجنسیاں اس کا پچھلا ریکارڈ دیکھ لیتی ہیں اور وہ یہ بھی دیکھتی ہیں کہ یہ ادمی کسی وقت ہمارے کام ا سکتا ہے یا نہیں ا سکتا ہے اس کی پچھلی بھول چوک کو وہ اسپیر میں رکھتی ہیں اور جب کوئی ایسا موقع اتا ہے کہ وہ ان کا ساتھ نہ دے ان کی باتیں نہ سنے تو اس کو اسی طرح لٹکا دیا جاتا ہے
اب یہ غلط کرتی ہیں یہ صحیح کرتی ہیں یہ الگ مسئلہ ہے لیکن ہمیں خود بھی تو کچھ ایمانداری کا ثبوت دینا چاہیے ہم جب دو نمبر کے کام کریں گے ایک وقت میں دو دو سرکاری نوکریاں کریں گے ایک وقت میں دو دو پڑھائیاں پڑیں گے میں خود ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو ایک وقت میں انجینئرنگ کر رہے تھے اور ساتھ میں انگریزی میں ماسٹرز کر رہے تھے تو یہ سب بظاہر تو اچھا لگتا ہے کہ بچے محنت کر رہے ہیں لیکن یہ سب غیر قانونی ہے ہر چیز کے اصول ہیں جب اپ پڑھ رہے ہیں تو اپ اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھیں دوسری جگہ داخلہ لیں گے تو کسی اور کا داخلے کا حق مارا جائے گا اسی طرح جب اپ دو دو تین تین نوکریاں کریں گے تو وہ دوسری جگہوں پہ لوگوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑے گا لیکن ہم سب کہیں نہ کہیں اس قسم کی دو نمبریاں کر رہے ہوتے ہیں
اب جسٹس بابر ستار کو ہی دیکھ لیں ان کو بھی جب بتایا گیا کہ اپ کی دو ملکوں کی شہریت ہے امریکہ کی شہریت ہے تو انہوں نے پورا انکار کیا اور بعد میں بالاخر ان کے پاس ایک گرین کارڈ برامد ہو گیا ، پھر کہنے لگے گرین کارڈ تو کوئی شہریت نہیں ہوتی حالانکہ وہ شہریتی ہوتی ہے شہریت کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے
تو جب بابر ستار جیسے معتبر قسم کے وکیل جج بننے کے لیے یہ سب ہتھکنڈے استعمال کر سکتے ہیں تو جہانگیری صاحب سے اپ کو کیا توقع تھی
اب وہ لاکھ کہتے رہیں کہ ان کی ڈگری اصلی ہے جو کہ اصلی ہے لیکن کیونکہ وہ غلط طریقے سے حاصل کی گئی ہے اس کا امتحان دینے کا ان کو کوئی حق حاصل نہیں تھا تین سال تک لیکن انہوں نے تین سال کے اندر امتحان دیا ہے تو لہذا اصولی طور پر وہ ڈگری ناکارہ ہے اور جعلی ہے
بہرحال کچھ بہتر ہو رہا ہے جنرلوں کو بھی سزا ہو رہی ہے عدلیہ میں ججوں کو بھی سزا ہو رہی ہے تو اس طرح ایک بہتر معاشرے کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اگر اس کو ایمانداری کے ساتھ ہی چلنے دیا جائے جیسا کہ اج کل 26ویں ترمیم اور 27 ویں ترمیم کے خلاف ایک محاز آرائی ہو رہی ہے ، میں یہ پوچھتا ہوں کہ یہ ترامیم کس لیے ہوئی ہے
ججوں کی اپوائنٹمنٹ کو ایک ریگولیٹری باڈی کے ذریعے کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے جو اس سے پہلے یہ ہماری اعلی عدلیہ کے جج خود کیا کرتے تھے اگلے 30 30 سال کے پینل بناتے تھے کہ ہم اس سال فلاں چیف جسٹس بنے گا اس سال فلاں کو جج بنا دو تو 20 سال میں یہ چیف جسٹس کے لیول پہ پہنچ جائے گا تو اس طرح انہوں نے تو پوری وہاں پر اپنی بادشاہی قائم کی ہوئی تھی اس بادشاہی کو اگر ان ائینی ترامیم نے توڑا ہے تو اس پہ ہمیں اور اپ کو کیا پرابلم ہے اگر جج انصاف کریں اگر جج ایمانداری سے فیصلے کریں تو اس سے سپریم کورٹ ہو یا ائینی عدالت ہو کیا فرق پڑتا ہے ۔
تو سابقہ جسٹس جہانگیری صاحب اب ہمارے لیے عبرت کا ایک نمونہ ہے اور ہم سب کو چاہیے تعلیم بھی ایمانداری سے حاصل کریں قانون پر عمل کریں جو راہیں ہماری اصلاح کے لیے متعین کی گئی ہیں ان راہوں سے بھٹکے نہیں
ورنہ کسی کو نہیں پتہ کب وہ کس ادارے میں کس وقت کس سٹیج کے اوپر جگ ہسائی کا باعث بن جائے ۔










Post your comments