پنجاب میں آباد بلوچ قبائل کی ایک بڑی خصوصیت ان کی زبان ہے۔ اگرچہ ان کی اصل زبان بلوچی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے سرائیکی کو اپنی روزمرہ بولی بنا لیا۔ آج جنوبی پنجاب کے بیشتر بلوچ قبائل سرائیکی بولتے ہیں اور اسی زبان میں اپنی شاعری، لوک کہانیاں اور ثقافتی اظہار کرتے ہیں۔ تاہم نسلی طور پر وہ خود کو بلوچ ہی کہتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ یہ دوہری شناخت انہیں پنجاب کے دیگر قبائل سے منفرد بناتی ہے۔
بلوچ قبائل کی سماجی ساخت بھی دلچسپ ہے۔ ان میں سرداری نظام کی روایت اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ بڑے قبائل جیسے لغاری، مزاری، کھوسہ، گورچانی اور دریشک اپنے سرداروں کے زیرِ اثر رہتے ہیں۔ یہ سردار نہ صرف قبائل کے اندرونی معاملات طے کرتے ہیں بلکہ مقامی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پنجاب کی سیاست میں کئی بڑے بلوچ سرداروں کے نام نمایاں ہیں جنہوں نے صوبائی اور قومی سطح پر اثر و رسوخ قائم کیا۔
ثقافتی لحاظ سے پنجابی بلوچ قبائل نے اپنی روایات کو زندہ رکھا ہے۔ ان کی شادی بیاہ کی رسومات، لوک گیت، رقص اور میلوں ٹھیلوں میں بلوچ رنگ جھلکتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے پنجاب کی وسیع ثقافت کو بھی اپنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے میلوں میں سرائیکی جھومر اور بلوچ چپے دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ امتزاج اس بات کی علامت ہے کہ بلوچ قبائل نے اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے پنجاب کی ثقافت میں رچ بس جانے کا عمل کامیابی سے مکمل کیا۔
معاشی طور پر بلوچ قبائل زیادہ تر زراعت اور مویشی پالنے سے وابستہ ہیں۔ جنوبی پنجاب کی زمینیں ان کے لیے روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں۔ کپاس، گندم اور گنا ان کی اہم فصلیں ہیں جبکہ مویشی پالنا ان کی قدیم روایت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید دور میں تعلیم اور کاروبار کی طرف بھی ان کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ کئی بلوچ خاندانوں نے شہروں میں جا کر تجارت اور پیشہ ورانہ شعبوں میں اپنی جگہ بنائی ہے۔
پنجاب کے بلوچ قبائل کو آج ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ جدید سیاست اور معیشت میں ان کی روایتی سرداری نظام کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل تعلیم حاصل کر کے نئے مواقع تلاش کر رہی ہے اور قبائلی حدود سے باہر نکل رہی ہے۔ اس تبدیلی نے ایک طرف انہیں ترقی کی راہ دکھائی ہے تو دوسری طرف ان کی روایتی شناخت کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ بلوچ قبائل اپنی تاریخ اور ورثے کو فراموش نہیں کر سکتے۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ پنجاب کے بلوچ قبائل اس خطے کی تاریخ اور ثقافت کا لازمی حصہ ہیں۔ انہوں نے اپنی ہجرت کو ایک نئے آغاز میں بدل دیا اور پنجاب کی سرزمین کو اپنی شناخت کا مرکز بنایا۔ آج وہ سرائیکی زبان بولتے ہیں، پنجاب کی ثقافت میں رچے بسے ہیں مگر اپنی بلوچ روایت پر فخر کرتے ہیں۔ یہی امتزاج انہیں پنجاب کے سماجی اور سیاسی منظرنامے میں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ان کی کہانی اس بات کی گواہی ہے کہ شناختیں وقت کے ساتھ بدلتی ہیں مگر اپنی جڑوں سے جڑے رہنا ہی اصل طاقت ہے۔










Post your comments