بابا وانگا: پیشگوئیوں کا تماشا اور ہمارا بھرم از قلم: نجیم شاہ

ایک نابینا بلغار عورت، جسے دُنیا ’’بابا وانگا‘‘ کے نام سے جانتی ہے، برسوں پہلے مٹی اوڑھ کر سو گئی، مگر اُس کا چرچا آج بھی ایسے زندہ ہے جیسے وہ ہر صبح تازہ پیشگوئیوں کا بلیٹن جاری کرتی ہوں۔ سال کے اختتام پر میڈیا اُس کا نام یوں اُچھالتا ہے جیسے کسی نے پراسرار خزانے کا ڈھکن کھول دیا ہو۔ نئی پیشگوئیوں کی فہرستیں نمودار ہوتی ہیں، اور ہم ایسے لپکتے ہیں جیسے قسمت کی کنجی انہی دھندلے جملوں میں چھپی ہو۔ یہ کھیل صرف پیشگوئیوں کا نہیں، ہمارے اجتماعی وہم اور فکری بھٹکاؤ کا بھی ہے۔

بابا وانگا کی زندگی میں نہ کوئی سالانہ کیلنڈر تھا، نہ کوئی پیشگوئیوں کی ڈائری۔ اُن کے نام پر جو کچھ آج گردش کر رہا ہے، وہ زیادہ تر بعد میں گھڑا گیا، چمکایا گیا، اور پھر میڈیا نے اُسے مصالحہ لگا کر بیچنا شروع کیا۔ لیکن ہم وہ قوم ہیں جسے حقیقت سے زیادہ پراسراریت بھاتی ہے۔ ہم اپنی ناکامیوں کا ملبہ قسمت پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں، اِس لیے بابا وانگا کی ہر مبہم بات ہمیں اپنی تقدیر کا فیصلہ لگتی ہے۔ یہ وہی ذہنی کمزوری ہے جس پر نجومیوں اور فال نکالنے والوں کا کاروبار چلتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بابا وانگا کی پیشگوئیاں مبہم ترین ہوتی ہیں۔ ایسی مبہم کہ اُنہیں کسی بھی واقعے پر فٹ کیا جا سکتا ہے۔ پہلے واقعہ ہوتا ہے، پھر اُس کے مطابق کوئی پرانی لائن نکال کر اُس پر چپکا دی جاتی ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جس سے ہاتھ کی لکیروں میں ہر چیز دیکھنے والے نجومی کام چلاتے ہیں۔ مبہم بات کرو، اور پھر ہر نتیجے پر فٹ کر دو۔ یہ نہ روحانیت ہے، نہ بصیرت  —  یہ صرف نفسیاتی چال ہے، اور ہم جیسے لوگ اس چال کے سب سے آسان شکار ہیں۔
ہر سال کی نئی پیشگوئیوں کی فہرست ایسے تیار ہوتی ہے جیسے کوئی ڈرامہ سیریل کی اگلی قسط لکھ رہا ہو۔ 2026ء کی پیشگوئیاں بھی اسی سلسلے کی تازہ قسط ہیں۔ کوئی کہتا ہے عالمی بحران آئے گا، کوئی کہتا ہے نئی بیماری پھیلے گی، کوئی کہتا ہے ٹیکنالوجی انسانیت کو نگل لے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب باتیں کوئی بھی عام آدمی تھوڑی سی عقل لگا کر نہیں کہہ سکتا؟ دُنیا کے حالات دیکھ کر کوئی بھی ’’پیشگوئی‘‘ کر سکتا ہے کہ بحران بڑھیں گے، جنگیں ہونگی، معیشتیں لڑکھڑائیں گی۔ اس میں کون سی روحانی بصیرت چاہیے؟
پیشگوئیوں کا کاروبار خوف پر چلتا ہے۔ جتنی بڑی آفت، اُتنی بڑی ریٹنگ۔ جتنا بڑا خطرہ، اُتنی بڑی خبر۔ اور ہم ایسے خوف زدہ لوگ ہیں کہ ڈر بھی ہمیں مزہ دیتا ہے۔ ہم قیامت کی تاریخیں سُن کر بھی لطف لیتے ہیں، عالمی جنگ کی افواہیں سُن کر بھی۔ بابا وانگا کی پیشگوئیاں اسی خوف کے کاروبار کا حصہ ہیں۔ مبہم جملے، غیر واضح اشارے، اور پھر ہر واقعے کے بعد ’’دیکھا، اُنہوں نے کہا تھا‘‘ کا شور سنائی دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان پیشگوئیوں میں سے زیادہ تر واقعات کے بعد گھڑی جاتی ہیں۔ پہلے واقعہ ہوتا ہے، پھر اُس کے مطابق پیشگوئی تراشی جاتی ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جس سے تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے، اور ہم اسے حقیقت سمجھ کر ہضم کر لیتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ پیشگوئیاں کہاں لکھی گئیں، کس نے محفوظ کیں، اور کس نے دہائیوں بعد انہیں ’’دوبارہ دریافت‘‘ کیا۔ ہم بس سنسنی کے پیچھے بھاگتے ہیں، جیسے عقل سے دشمنی کا کوئی معاہدہ کر رکھا ہو۔
اصل دُکھ یہ ہے کہ ہم ان پیشگوئیوں کو حقیقت سمجھ کر اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر سب کچھ پہلے سے طے ہے تو پھر کوشش کیسی؟ محنت کیوں؟ اصلاح کیوں؟ یہی سوچ قوموں کو برباد کرتی ہے۔ بابا وانگا تو برسوں پہلے رخصت ہو چکی تھیں، مگر اُن کے نام پر گھڑی گئی باتیں آج بھی ہمارے ذہنوں پر قبضہ کیے بیٹھی ہیں۔ یہ پیشگوئیاں نہیں، ہماری ذہنی غلامی ہے۔
بات سیدھی سی ہے کہ بابا وانگا کی پیشگوئیاں حقیقت نہیں، ہمارے اجتماعی وہم کا آئینہ ہیں۔ وہ تو دُنیا سے جا چکی تھیں، مگر ہم آج بھی اُن کے نام پر بنائی گئی کہانیوں کو اپنی تقدیر سمجھ کر جیتے ہیں۔ اصل ضرورت ان پیشگوئیوں کے پوسٹ مارٹم کی نہیں، اس ذہنی کمزوری کے علاج کی ہے جو ہمیں ہر سال نئی فہرستوں کا اسیر بنا دیتی ہے۔ جب تک ہم عقل کو استعمال نہیں کرینگے، بابا وانگا نہیں، ہماری اپنی سوچ ہی ہمیں دھوکا دیتی رہے گی۔

About the author /


Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *