روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ریکارڈ پانچویں بار صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرلی ہے۔پیوٹن روس کی 200 سالہ تاریخ میں جوزف اسٹالن کے بعد طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے رہنما بن گئے ہیں۔71 سالہ پیوٹن کے جی بی سابق لیفٹیننٹ کرنل تھے، پیوٹن 1999میں اقتدار میں آئے، وہ مزید 6 برس تک اقتدار میں رہیں گے۔ دوسری جانب امریکا نے روس کے صدارتی انتخابات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن آزادانہ نہیں تھے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق روس میں ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 67 فیصد رہا۔ولادیمیر پیوٹن 88 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور وہ سب سے زیادہ ووٹ لینے والے روسی رہنما بن گئے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں سب سے زیادہ چیچنیا میں 96 فیصد ووٹنگ ہوئی جبکہ روس سے باہر دنیا بھر میں 230 پولنگ اسٹیشنوں پر سوا لاکھ ووٹرز نے اپنا حق رائے استعمال کیا۔تین روزہ پولنگ میں صدر پیوٹن کے مدمقابل چار امیدوار تھے جن میں سے ایک اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی پرسرار طور پر جیل میں مارے گئے تھے۔گزشتہ روز روس میں آٹھویں صدر کیلئے تین روزہ انتخابات کا تیسرا اور آخری روز تھا، پیوٹن نے ماسکو سے آن لائن ووٹ کاسٹ کیا، جیت کیلئے امیدوار کو مجموعی ووٹوں کے 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے تھے۔واضح رہے کہ گزشتہ انتخاب میں پیوٹن نے 76 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ وہ روس کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے روسی رہنما بن گئے ہیں۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ میری جیت روس کو مضبوط بنا دے گی۔
الیکشن ہیڈ کوارٹرز میں گفتگو کرتے ہوئے پیوٹن نے کہا کہ یوکرین میں مغربی فوج کی موجودگی دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر پہنچا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ روس کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ یوکرین میں امن کے لیے کس سے بات کی جاسکتی ہے، یوکرین میں امن سے متعلق بات چیت کے لیے یوکرینی صدر آپشن نہیں۔روسی صدر نے عالمی افق پر کامیابی پر چین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چین اور روس کے درمیان پائیدار تعلقات مستقبل میں مزید مضبوط ہوں گے، چین کے خلاف پابندیاں ختم ہونی ہی ہیں۔ ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ امریکا سمیت مغرب میں کوئی جمہوریت نہیں، روس میں انتخابی نظام امریکا سے زیادہ شفاف ہے، روس کو اپنی فوج کو مزید مضبوط بنانا ہو گا، یوکرین میں اسپیشل آپریشن کے اہداف حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر الیکسی ناولنی کا انتقال افسوسناک واقعہ ہے، ناولنی کے انتقال سے چند روز پہلے ایک ساتھی نے قیدیوں کے تبادلے کی تجویز دی تھی، ناولنی کا کچھ مغربی ممالک میں موجود قیدیوں سے تبادلے کی تجویز تھی، تجویز دینے والے کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی میں نے اتفاق کیا، بدقسمتی سے جو ہوا سو ہوا، میں نے کہا تھا ان کو باہر بھیجنے کی ایک ہی شرط ہو گی کہ وہ واپس نہ آئیں، چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے دوپہر کے وقت ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنے کی جو اپیل کی تھی اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، جن لوگوں نے توڑ پھوڑ کے ذریعے دوسرے لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا ان کو سزا ملے گی۔
Post your comments