جب سے ہماری نسل نے ہوش سنبھالا ہے ہم ملک میں اکثر فوجی امریت کی بات کرتے ہیں ایوب خان سے لے کے ضیاء الحق اور پھر مشرف تک ملک فوجی حکومت کے زیر اثر رہا اور فوجیوں نے سول حکومتیں بنائیں ائین میں چھیڑ خوانی کی اور وہ سب کچھ کیا جو کسی جمہوری ملک میں برداشت نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستان سست رفتاری کے ساتھ اگے بڑھتا رہا اور اکثر ایسا لگتا ہے کہ فوجی دور میں کیونکہ ایک لمبا دور حکومت ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ ترقی ہوتی ہوئی نظر اتی ہے اسی لیے لوگوں کو ابھی پرویز مشرف کی یاد اتی رہتی ہے
چھبیسویں آئینی ترمیم کی مخالفت کیوں ؟ تحریر:ظفر محمد خان

اس سے پہلے ایوب خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کی یاد ائی ان کے جانے کے بعد وغیرہ وغیرہ
لیکن ساتھ ساتھ ان اندیشوں کا بھی خوب اظہار کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے جو ادارے ہیں جس میں قومی اسمبلی ہے سینٹ ہے عدلیہ ہے اور صحافت ہے ان سب کو عسکری ادارے چلاتے ہیں یا جو ادارے زیادہ مضبوط ہیں جیسے عدلیہ وہ خود اپنے اپ کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتی ہے
فوج کے تو کمانڈر ان چیف کا تقرر سول حکومت کا سربراہ یعنی وزیراعظم کرتا ہے لیکن عدلیہ تو اتنی ازاد ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے ۔ ماضی میں یہ ہوتا ایا ہے کہ چیف جسٹس بننے کے لیے 30 سال پہلے سے پلاننگ شروع ہو جاتی ہے اور اس وقت کے موجودہ چیف جسٹس اس طرح سے ججوں کا تعین کرتے ہیں کہ اج جس کو لگائیں گے اگلے 20 سال میں اس کا بیٹا اگر وکیل بنا تو اس قابل ہو جائے گا کہ اس کو ہائی کورٹ کے ذریعے سپریم کورٹ میں لایا جائے اور پھر فلاں سال فلاں سال یہ چیف جسٹس بن سکے یا سینیئر جج بن سکے گویا عدلیہ کے اوپر ایک مخصوص طبقے کا مکمل کنٹرول ہمیشہ سے دیکھا جاتا رہا ہے
اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے صحافیوں کا ہمارے دانشوروں کا رونا دھونا کہ عدلیہ پہ ججوں کا نازی ازم جاری ہے وہ جسے چاہتے ہیں مختلف ہائی کورٹوں سے پکڑ کے سپریم کورٹ میں لے اتے ہیں اور جج بنا دیتے ہیں اور پھر وہی جیسا کہ میں نے اوپر تحریر کیا کہ اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ فلاں سال حکومت کو مشکل وقت دینے کے لیے فلاں جج موجود ہوگا اور یہی جج جب فوجی مارشل لا لگتا ہے تو یہ غیر منتخب حکمرانوں کے ساتھ وہ فیصلے کرنے لگتے ہیں جن پر انسو بہانے کو دل چاہتا ہے مثال کے طور پر پرویز مشرف کو اختیار دے دیا کہ وہ ائین میں جو چاہے ترمیم کر لے یعنی وہ ترمیم جو دو تہائی اکثریت سے بھی بڑی مشکل سے ہوتی ہے بڑی الزامات سہنے پڑتے ہیں جو اکثریت ہوتی ہے اس پہ بھی الزام جو حزب اختلاف ہوتی ہے ان پر بھی الزام تب جا کے کوئی ترمیم منظور ہوتی ہے لیکن فوجی حکومت سے یہ فیصلہ لے لیتے ہیں کہ وہ جو چاہے ائین میں ترمیم کریں ۔
تو پچھلے تقریبا 20 سال کے اندر ایسے نمونے بہت دیکھنے کو ملے جب سپریم کورٹ کے ججوں نے ہم خیال ججوں کے ایک گروپ بنا کر حکومتوں کے خلاف یا حکومتوں کی حمایت میں خوب فیصلے دیے ۔ ماضی قریب میں جائیں تو ثاقب نثار اس کی ایسی عبرت ناک مثال ہے جس کے بارے میں عمران خان اپنے اقتدار میں انے سے پہلے گن گن کر بتایا کرتے تھے کہ فلاں دور میں فلانا جج ہوگا تو ہمیں یوں فائدہ ہوگا تو ثاقب نثار ائے اور انہوں نے سب کچھ وہی کیا جس کی وجہ سے اس زمانے کی حکومت مسلم لیگ کو انہوں نے کنارے لگا دیا اور ہر طرح کے ایسے فیصلے کیے جس سے عمران خان کو حکومت میں انے میں مدد ملی اور اس کے اندر بلاشبہ ان کے پیچھے ہماری عسکری قیادت تھی
ثاقب نثار کے بعد کھوسہ ائے اور کھوسہ کے بعد بندیال نے ا کر اس کو حرف اخر ثابت کر دیا اور چن چن کے ایسے فیصلے کیے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ عدلیہ میں ایک مخصوص گروپ ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا ہوا ہے اور سپریم کورٹ وہی کرے گی جو اسے اپنی انکھوں سے دیکھتے ہوئے دکھائی دیتا ہے
ججوں کی اس مفاد پرستی اور سپریم کورٹ پر حکمرانی سے یہ اوازیں اٹھنے لگی کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے انتخاب میں عوامی نمائندوں کا حصہ ہونا چاہیے اخر یہ کیسے ہو سکتا ہے جن عوامی نمائندوں کی ترامیم کو جن عوامی نمائندوں کی باتوں کو یہ سپریم کورٹ یک لخت مسترد کر دے تو ایسے نمائندوں کی طاقت تو زیرو ہی رہی نا
بہرحال جب کسی چیز کے انتہا ہوتی ہے تو اس کے سدباب کے ذرائع پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ سب کچھ ہوا ، 26 ویں ائینی ترمیم ائی اور اس ائینی ترمیم کے اتے وقت کوئی افتخار چوھری موجود نہیں تھا جو تڑیاں لگا کر اپنی طاقتوں کو کم کروانے کی ترمیموں کو یہ کہہ کے منع کر دے کہ اگر یہ ترمیم ائی تو ہم پورے ائین کو مسترد کر دیں گے
قاضی فائض عیسی جیسا محب وطن اور عوامی نمائندوں کا حامی جج چیف جسٹس تھا اور انہوں نے اس ترمیم کے راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور اب ہم یہ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب بھی صرف جج نہیں کریں گے بلکہ ایک پوری کمیٹی کرے گی جس میں عوامی نمائندے ہوں گے حزب اختلاف بھی ہوگی بار کونسل بھی ہوگی ۔ اور تین سینیئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیا جائے گا
ظاہر ہے جب ارمی میں اوپر کے بہترین افسروں میں سے کسی ایک کو ارمی چیف بنایا جا سکتا ہے تو عدلیہ میں بھی ایسا ہو سکتا ہے
اس کے ساتھ ساتھ کیونکہ سپریم کورٹ کے اندر ائینی معاملات بہت اتے ہیں اور ان کو بہت فوکس کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کے عام کام کرنے پہ اثر پڑتا ہے اس لیے ائینی عدالت بنانے کی طرف راغب ہوئے اور فی الحال ایک ائینی بینچ بنا دیا گیا ہے تاکہ جو ائینی معاملات ہیں وہ سارے ائینی بینچ کے سامنے ائیں اور پاکستان کے جو 90 فیصد مقدمات ہیں جو کہ غیر ائینی ہوتے ہیں اس کو سپریم کورٹ کے باقی جج لے کر چلیں
اب اس میں عدلیہ کا کیا نقصان ہے عوام کا کیا نقصان ہے ؟
بلکہ دیکھا جائے تو عوام کی رائے کو ایک طاقت دی گئی ہے کہ عوامی نمائندے جو مقننہ ہیں جو قانون بناتے ہیں ان کو قانون کے ججوں کو منتخب کرنے اور اس اور ایک معیاری طریقے سے چلانے کی طاقت ہونی چاہیے جو ان کو ملی
لیکن کیونکہ ہمارے ہاں ہر وقت ایک بلاوجہ اختلاف کی جو عادت ہوتی ہے جو بلا کسی وجہ کے مخالفت کرتی ہے وہ 26ویں ائینی ترمیم کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور 26 ویں ائینی ترمیم کے خلاف ایک ایسا ماحول بنانا چاہتے ہیں جیسے اس 26 ویں ترمیم کو اگر منسوخ کر دیا گیا تو پاکستان میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی
ایسا کچھ بھی نہیں ہے 26ویں ائینی ترمیم کے خلاف حالیہ بار کونسل کے انتخابات میں ایک گروپ جس کو پی ٹی ائی کی حمایت حاصل تھی پوری طاقت کے ساتھ کھڑا تھا لیکن اس کو سپریم کورٹ بار کونسل میں بھی شکست ہوئی اور اب کل رات کو پورے پاکستان کی بار کونسلوں کے الیکشن میں بھی شکست ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 26ویں ائینی ترمیم پر عام وکلا بھی جو عوام سے تعلق رکھتے ہیں یہی سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی عدلیہ کے لیے بے حد ضروری ہے
پاکستان کے عوام کو جلدی انصاف چاہیے اس کے لیے ائینی عدالتوں کو ایک طرف ہونا چاہیے اور عام مسائل کے لیے عدالتوں کو تیزی سے کام کرنا چاہیے اور ججوں کے انتخاب میں عوامی نمائندوں کو بہرحال فوقیت ہونی چاہیے جو اس وقت حاصل ہے تو لہذا 26 ویں ائینی ترمیم کے بارے میں ہمیں مثبت انداز میں سوچنا چاہیے اس ترمیم سے پاکستان کو فائدہ ہوا ہے نقصان نہیں
























Post your comments