یہ محض ماضی کا واقعہ نہیں، بلکہ آج کے نظام کی لرزتی ہوئی بنیادوں کا استعارہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی صرف ایک معجزہ نہیں تھی، وہ دلیل تھی — ایسی دلیل جو فرعون کے تخت کو ہلا گئی، اور طاقت کے ہر جھوٹے تاثر کو بے نقاب کر گئی۔ اُس لاٹھی نے ثابت کیا کہ سچ اگر یقین سے ادا ہو، تو جادو بھی منطق کے سامنے جھک جاتا ہے۔ مگر ہم نے اُس لاٹھی کو قصے کی زینت بنا دیا، اُس کی روح کو دفن کر دیا۔ ہم نے سچ کو علامت سمجھا، عمل نہیں۔ ہم نے معجزے کو ماضی کی روایت بنا دیا، حال کی ہمت نہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی آج بھی ہمارے درمیان ہے — مگر ہم نے اُسے فرعون کے دربار میں چھوڑ دیا ہے، جہاں طاقت دلیل سے زیادہ بولتی ہے، اور مصلحت سچ سے بڑی سمجھی جاتی ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے جب سچ کہا، تو اُن کے سامنے تخت، لشکر، اور ایک ایسا نظام تھا جو خود کو خدا سمجھتا تھا۔ مگر اُن کی آواز میں نہ خوف تھا نہ سمجھوتہ۔ آج بھی جو شخص سچ بولتا ہے، وہ فائلوں میں دفن کر دیا جاتا ہے، عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے، اور میڈیا کے شور میں مسخ کر دیا جاتا ہے۔ اُس وقت فرعون کہتا تھا، ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘؛ آج بھی ہر طاقتور یہی اعلان کرتا ہے کہ قانون وہ ہے جو وہ لکھے، انصاف وہ ہے جو وہ بانٹے، اور حق وہ ہے جو اُس کے مفاد میں ہو۔ ہم نے اِداروں کو بُت بنا لیا ہے، اور ضمیر کو غلام۔ ہم نے آواز کو جرم، اور اختلاف کو دشمنی سمجھ لیا ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ طاقت کا سب سے بڑا دشمن دلیل ہے، اور دلیل ہمیشہ کمزور کی سب سے بڑی قوت۔
جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکی، تو وہ سانپ بن گئی — ایک ایسا منظر جس نے دربار کے جادوگروں کے غرور کو توڑ دیا۔ وہ سچ کے سامنے جھک گئے، کیونکہ اُنہیں یقین ہو گیا کہ یہ جادو نہیں، حق ہے۔ مگر آج کے جادوگر سچ کو فریب بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ جھوٹ کو علم کا لبادہ پہنا دیتے ہیں، اور باطل کو حکمت کہہ کر بیچ دیتے ہیں۔ اُس وقت باطل نے شکست تسلیم کی تھی، آج باطل شکست کو فتح کے طور پر پیش کرتا ہے — اور ہم تالیاں بجاتے ہیں۔ آج کے دربار میں لاٹھی بھی کانپتی ہے، اور تماشائی بھی خاموش رہتے ہیں۔ یہ زمانہ دلیل سے نہیں، خوف سے چل رہا ہے۔ جہاں خوف قانون بن جائے، وہاں سچ صرف ایک نعرۂ رہ جاتا ہے، اور نعرے ہمیشہ شور میں دب جاتے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو غلامی سے نکالا، مگر راستے میں اُنہی کے دل کمزور پڑ گئے۔ وہ آزاد تو ہو گئے، مگر ذہن غلام رہے۔ وہ معجزہ دیکھنے کے باوجود شکایت کرتے رہے، اور سونے کے بچھڑے کے سامنے جھک گئے۔ آج ہم بھی آزادی چاہتے ہیں، مگر قربانی نہیں۔ ہم تبدیلی کے خواہاں ہیں، مگر اپنی عادتیں بدلنے پر آمادہ نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دریا خود پھٹ جائے، مگر ہم خود قدم رکھنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لاٹھی حرکت کرے، مگر ہمارے ہاتھ کمزور ہیں۔ ہم انتظار میں ہیں کہ کوئی دُوسرا معجزہ دکھائے، حالانکہ اصل معجزہ یقین اور عمل میں چھپا ہے۔ ہم دُعا تو کرتے ہیں، مگر یقین نہیں رکھتے؛ ہم اُمید کی بات کرتے ہیں، مگر کوشش نہیں کرتے۔
جب موسیٰ علیہ السلام دریا کے کنارے پہنچے، تو قوم نے کہا: ’’ہم تو پکڑے گئے‘‘۔ موسیٰ نے کہا: ’’میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ رہنمائی کرے گا‘‘۔ یہی وہ یقین تھا جو سمندروں کو راستہ دیتا ہے، مگر ہم نے یقین کو نعرے میں بدل دیا ہے۔ آج ہم ہر بحران میں مایوس ہو جاتے ہیں، ہر مشکل پر گھبرا جاتے ہیں، اور ہر ناکامی کو مقدر سمجھ لیتے ہیں۔ ہم نے دُعا کو رسم بنا دیا، عبادت کو عادت، اور ایمان کو الفاظ تک محدود کر دیا۔ ہم بھول گئے ہیں کہ یقین حرکت کا نام ہے، انتظار کا نہیں۔ ہم اپنے طوفانوں سے بھاگتے ہیں، حالانکہ طوفان راستہ دکھاتے ہیں۔ اگر ہم میں ایمان کا وہ حصہ زندہ ہو جائے جو موسیٰ علیہ السلام کے دل میں تھا، تو کوئی دریا ہمیں روک نہیں سکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے جب وعدہ خلافی کی، تو وہ چالیس سال تک صحرا میں بھٹکتی رہی۔ وہ غلامی سے نکلے ضرور، مگر آزادی کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔ آج ہم بھی وعدے توڑتے ہیں — عوام سے، اپنے ضمیر سے، اپنے اُصولوں سے۔ ہم قانون کو طاقت کے تابع کرتے ہیں، انصاف کو سیاست کے تابع، اور سچ کو مفاد کے تابع۔ ہم بھٹک رہے ہیں، مگر خوش ہیں؛ ہم رُکے ہوئے ہیں، مگر خود کو چلتا ہوا سمجھتے ہیں۔ ہم نے راستہ گم کر دیا ہے، مگر جشن سفر مناتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے بھٹکنے کو ترقی سمجھ لیا ہے۔ جب تک سچ اُصولوں پر نہیں، مفاد پر تولاجائے گا، تب تک صحرا منزل نہیں بنے گا۔
یہ کہانی صرف موسیٰ ؑکی نہیں، بلکہ ہر اُس شخص کی ہے جو سچ بولنے کی جرأت رکھتا ہے، ظلم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، اور باطل کو چیلنج کرتا ہے۔ موسیٰ کی لاٹھی آج بھی موجود ہے — دلیل کی صورت میں، قلم کی طاقت میں، اور ضمیر کی روشنی میں۔ مگر ہم نے اُسے زمین پر رکھ دیا ہے، اور تخت کے دربار میں نوکری ڈھونڈنے لگے ہیں۔ ہم نے اُصولوں کو وقتی مفاد پر قربان کر دیا ہے، اور سچ کو سیاسی بیانیوں کے نیچے دبا دیا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے، یہ دُنیا فرعونوں سے بھری ہوئی ہے، مگر ایک سچا دل آج بھی دریا چیر سکتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے — سچ، صبر اور قربانی۔ جب تک ہم طاقت کو اُصولوں سے بڑا سمجھتے رہیں گے، موسیٰ کی لاٹھی صرف قصہ رہے گی، اور ہم صرف تماشائی۔ مگر جس دِن ہم نے سچ کو تخت سے بڑا مان لیا، اُس دن نظامِ خوف کا جادو ٹوٹ جائے گا، اور سچ پھر سانپ بن کر جھوٹ کے محل کو نگل جائے گا۔

























Post your comments