ریاستِ ڈوما موجودہ خیبرپختونخواہ کے شمالی پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ایک منظم غیر مسلم ریاست تھی جس کا آخری حکمران ’’ڈوما کافر‘‘ کہلاتا تھا۔ یہ ریاست دریائے سندھ کے مغربی کنارے، کوہِ سیاہ کے بالمقابل واقع تھی اور اس میں بونیر، شانگلہ، تورغر، بشام اور چکسیر جیسے علاقے شامل تھے۔ اس خطے کی جغرافیائی ساخت نکیلی پہاڑیوں اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل تھی، جس کی وجہ سے اس پر فتح حاصل کرنا عسکری اعتبار سے ایک غیر معمولی کارنامہ شمار ہوتا ہے۔ یہاں کے حکمران کی نسبت چونکہ کافرستان سے تھی، اسی لیے اُسے ’’ڈوما کافر‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ لقب اُس کی مذہبی شناخت کی علامت تھا، کیونکہ وہ ان اقوام میں شامل تھا جو اسلام سے قبل دیومالائی عقائد، رسوم اور تہواروں پر عمل پیرا تھیں۔
محمد اکبر شاہ المعروف اخوند سالاک اُن بزرگوں میں شامل تھے جنہوں نے روحانی قیادت کے ساتھ ساتھ عملی جہاد کی سربراہی بھی کی۔ سترہویں صدی کے وسط، 1644ء میں اُنہوں نے ریاستِ ڈوما کے خلاف باقاعدہ جہاد کا آغاز کیا۔ مذہبی جذبے سے سرشار قبائل کو متحد کر کے اُنہوں نے ایک منظم لشکر تیار کیا۔ یوسفزئی قبیلے کے سردار بہاکو خان بھی اس مہم میں اخوند سالاک کے شانہ بشانہ تھے۔ قلعہ ڈوما، جو پہاڑ کی چوٹی پر واقع تھا اور ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا، شدید مزاحمت کے بعد فتح ہوا۔ عیسیٰ زئی قبیلے کے ایک جانباز کے تیر سے ڈوما کافر ہلاک ہوا، جس کے ساتھ ہی اس ریاست کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ فتح صرف عسکری کامیابی نہیں تھی بلکہ ایک تہذیبی اور دینی انقلاب کا نقطۂ آغاز بھی ثابت ہوئی۔
ڈوما کافر کی نسلی شناخت کے حوالے سے مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے اُسے تاتاری النسل قرار دیا، کچھ نے ہندو شناخت سے جوڑا، تاہم معتبر تاریخی روایات کے مطابق اُس کا تعلق دردی قبائل سے تھا، جو نورستان، چترال، گلگت اور کوہستان کے قدیم آریائی باشندے تھے۔ اُن کی زبان، عقائد اور رسوم پشتونوں سے مختلف تھیں۔ یہی قبائل بعد ازاں کالاش، گاوری، چیلیسو اور دیگر ناموں سے پہچانے گئے۔ چیلیسو قبیلہ بعد ازاں چلاس کی وجۂ تسمیہ بنا، جو آج بھی اس علاقے کی شناخت کا حصہ ہے۔ ان اقوام کی تہذیب، طرزِ زندگی اور مذہبی رسوم نے انہیں صدیوں تک ایک الگ شناخت دی، جسے بعد میں اسلامی اثرات نے بدل کر رکھ دیا۔
فتحِ ڈوما کے بعد اخوند سالاک نے اسلام کی ترویج و اشاعت کا دائرہ وسیع کیا۔ اُنہوں نے پکھلی، آلائی، نندھار، کوہستان، چیلاس، گلگت، یاسین، مستوج، چترال، کالاش، کاغان، اگرور اور تلاش جیسے علاقوں میں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ کوہِ ڈوما سے زندہ بچ کر فرار ہونے والے قبائل کا اُنہوں نے چترال تک تعاقب کیا۔ اُن کی دعوتِ دین نے ان خطوں میں فکری بیداری پیدا کی اور مقامی اقوام میں دینی شعور کو فروغ دیا۔ اخوند سالاک کی تبلیغی بصیرت اور عملی جدوجہد نے اس پورے خطے میں ایک نئی دینی شناخت کی بنیاد رکھی۔
چترال میں اخوند سالاک نے نغرشو نامی سردار کے خلاف کارروائی کی، جس میں مقامی نومسلم چوک سردار نے اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس مہم میں اخوند سالاک نے نہ صرف عسکری حکمت عملی کا مظاہرہ کیا بلکہ روحانی اثر و رسوخ بھی قائم کیا۔ کالاش اقوام کی بارہ شاخیں تھیں جن میں ایک قبیلہ ڈوما بھی شامل تھا۔ ان اقوام کے تہوار جیسے متان تھینی، رقص، شراب نوشی اور اجتماعی نغمگی پر مشتمل ہوتے تھے، جو اُن کی تہذیبی خودمختاری کی علامت تھے۔ یہی ثقافتی عناصر بعد ازاں ’’ڈوم‘‘ کی اصطلاح سے وابستہ ہوئے، جو آج ہزارہ میں اُن افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے جو ناچ گانے اور ڈھول بجانے جیسے فنون سے وابستہ ہیں۔
ڈوما قبیلے کی زبان کے بارے میں دو روایات ملتی ہیں۔ ایک کے مطابق اُن کی زبان ڈوماخی تھی، جسے داؤدی، بیریچو اور ڈوماکی بھی کہا جاتا ہے۔ دُوسری روایت کے مطابق ریاستِ ڈوما کے بادشاہ ڈوما کافر چیلیسو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جن کی زبان چِھلِسِیو تھی۔ دونوں زبانیں اب معدوم ہو رہی ہیں اور ان کے بولنے والوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ لسانیات کے ماہرین کے مطابق یہ زبانیں دردی لسانی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کا زوال ایک تہذیبی المیہ ہے، جو اس خطے کی ثقافتی تنوع کے خاتمے کی علامت بھی ہے۔
کافرستان وہ علاقہ تھا جو آج کے کالاش، نورستان، چترال اور ارد گرد کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہاں کے باشندے اپنی الگ زبان، عقائد اور ثقافت رکھتے تھے۔ اُن کی شناخت مذہبی بنیادوں پر ’’سپین کافر‘‘ (سفید) اور ’’تور کافر‘‘ (سیاہ) کے ناموں سے کی جاتی تھی۔ بعد ازاں اخوند سالاک اور دیگر بزرگانِ دین کی کوششوں سے یہ علاقہ اسلام کے زیر اثر آیا اور کالاش اقوام کی باقیات آج بھی اپنی روایات پر قائم ہیں۔ ریاستِ ڈوما کی شکست نہ صرف ایک سیاسی تبدیلی تھی بلکہ ایک تہذیبی انقلاب کا نقطۂ آغاز بھی تھی، جس نے اِس پورے خطے کو اسلامی تمدن سے روشناس کرایا اور ایک نئی دینی و ثقافتی شناخت کی بنیاد رکھی۔

























Post your comments