class="wp-singular post-template-default single single-post postid-10282 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

یوکرین کا مسئلہ حل کرنا ترجیح ہے، پیوٹن

روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے کہا ہے کہ امریکا سے بات چیت کے نتائج سے انھیں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ یوکرین کا مسئلہ حل کرنا روس کی ترجیح ہے۔

سعودی دارالحکومت ریاض میں امریکا، روس حکام کی ملاقات پر روسی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ اب سفارتی مشن کا کام دوبارہ سے شروع کیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ یوکرین کا مسئلہ حل کرنا روس کی ترجیح ہے، روسی اور امریکی وفد نے توانائی کے شعبے پر بھی بات کی۔روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے کہا کہ امریکی وفد نے کسی تعصب کے بغیر بات چیت میں حصہ لیا، ہمیں کسی ثالث کی ضرورت نہیں، صدر ٹرمپ نے بتایا تھا کہ یوکرین بھی بات چیت میں حصہ لے گا۔ انھوں نے کہا کہ امریکی اور روسی حکام کو قابل قبول حل تیار کرنے کی ضرورت ہے، صدر ٹرمپ سے ملاقات کر کے خوشی ہوگی، ملاقات کی تیاری ابھی ہونی ہے۔ روسی صدر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی آنے والے دنوں میں فون پر بات کروں گا، روس، امریکا اور سعودی عرب کے درمیان توانائی مذاکرات کی ضرورت ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو مزاحیہ اداکار قرار دے دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ زیلنسکی ایسے کامیڈین تھے جنھیں اپنے شعبے میں بھی محدود کامیابی حاصل ہوئی تھی مگر انہوں نے امریکا کو ورغلا کر ایک ایسے جنگ میں ساڑھے تین سو ارب ڈالر جھونکنے پر آمادہ کر لیا جو یوکرین جیت بھی نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین جنگ شروع ہی نہیں ہونی چاہیے تھی، یہ ایسی جنگ ہے جو وہ امریکا اور ٹرمپ کی مدد کے بغیر ختم بھی نہیں کر سکتے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا نے اس جنگ میں یورپ سے دو سو ارب ڈالر زیادہ خرچ کیے ہیں اور امریکا کا پیسہ واپس بھی نہیں آنے والا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سوتے رہنے والے جو بائیڈن نے یورپ سے برابری کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ کیوں کہ یہ جنگ ہم سے زیادہ یورپ کے لیے اہم تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اوپر سے زیلنسکی یہ کہتے ہیں کہ امریکا نے یوکرین کو جو رقم بھیجی اس میں سے آدھی غائب ہو گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ واحد کام جو زیلنسکی کو آتا تھا وہ تھا جو بائیڈن کو بانسری کی طرح بجانا، زیلنسکی کو اب تیزی سے کام کرنا ہوگا ورنہ ان کا ملک باقی نہیں بچے گا۔

برطانوی وزیراعظم اورجرمن چانسلر یوکرین کے صدر کی حمایت میں ڈٹ گئے۔

برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ یوکرین کے صدر جمہوری طریقے سے شفاف انتخابات کے بعد منتخب ہوئے تھے، ان کو یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے انتخابات کو التوا میں ڈالنا پڑا، ایسا برطانیہ میں جنگ عظیم دوئم  کے وقت بھی ہوا تھا۔اسی طرح جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ جنگ کے درمیان میں باقاعدہ نئے الیکشن نہیں کرائے جاسکتے تھے، جو کچھ ہوا وہ یوکرین کے دستور کے مطابق تھا۔اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو غیر مقبول ترین شخص قرار دے دیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی کی مقبولیت 4 فیصد سے بھی کم ہے۔یاد رہے کہ موجودہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی صدارتی مدت مئی 2024ء میں ختم ہوگئی تھی۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter