مصر انے کے بعد میں نے یہ سوچا کہ سفر کا اغاز اس چیز سے نہیں کیا جائے اور جو روایتی طور پر ساری دنیا کرتی ہے یعنی احرام مصر کے علاوہ بھی اہم ترین جگہ یہاں قاہرہ میں موجود ہے جس کی زیارت ہمیں پہلے کرنی چاہیے ۔
قاہرہ میں امام حسین کا روضہ سر اقدس ظفر محمد خان

ایئرپورٹ پر ویزا 25 امریکن ڈالر میں ملتا ہے صرف ان ممالک کو جن کو مصر کی حکومت نے اجازت دی ہے
ایئرپورٹ انتہائی جدید ہے اور کام کرنے والے بھی اسی طرح تیز رفتار ہیں لہذا ایئرپورٹ بھی کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہو سکتی سامان بھی تیزی ٹرانسفر ہو جاتا ہے اور ایئرپورٹ کے باہر ایسی کوئی واردات ہم نے نہیں دیکھی جس میں اپ کے لیے پریشانی ہو تا ہم ٹیکسی والے اپ کو کھینچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں
ٹیکسی اسانی سے مل جاتی ہے لیکن کیونکہ وہ بارگین کرتے ہیں اس لیے اوبر اچھا راستہ ہے لیکن یاد رکھیں اوبر ایک مخصوص جگہ سے ملتی ہے جو ٹرمینل نمبر تھری پر ہے
مصر ابھی تک ایک سستا ملک ہے ہوٹل یہاں سستے ہیں اور اتنے جدید نہیں ہیں جتنے دنیا میں جگہ جگہ ہیں لیکن پھر بھی اچھی ارام دہ رہائش فراہم کرتے ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مصر انتہائی محفوظ ہے کسی بھی قسم کی چور بازاری ڈکیتی یا فراڈ کا خطرہ کم سے کم ہے
خیر ہم نے اپنے سفر کا اغاز مسجد امام حسین میں حاضری سے کیا جہاں پر حضرت امام حسین کا سر اقدس کچھ عرصے دفن رہا تھا اس بارے میں بہت ساری روایتیں موجود ہیں تاہم اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بنی فاطمی نے قاہرہ کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا اور یہاں پر یقینی طور پر وہ اپنے جد امجد یعنی حضرت امام حسین کے سر کو دفن کر سکتے تھے ۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں بھی امام حسین کے مخالف عناصر سے سر اقدس کو بچانے کے لیے کچھ عرصہ اسے یہاں فاطمی برتری کے مقام پر دفن کیا گیا
یہ ایک ضریح ہے جو مسجد کے ساتھ منسلک ہے مسجد بہت بڑی ہے مسجد نبوی کی طرز پر بنی ہوئی ہے ہر وقت سینکڑوں لوگ یہاں موجود رہتے ہیں ان میں سے زیادہ تر ضریح مبارک کے قریب ہوتے ہیں اور وہاں پر وہ اپنے درد و غم کا اظہار کرتے ہیں
مصر میں شیعہ نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن میرا خیال ہے پھر بھی دوسرے ممالک سے شیعہ حضرات نے جب سفر کرتے ہیں تو وہ یہاں ضرور اتے ہوں گے ، بوہری مسلمانوں کا بھی ہیڈ کوارٹر قاہرہ ہے لہذا مجھے امید ہے کہ محرم وغیرہ میں یہاں پر کافی رش ہوتا ہوگا
مسجد کے اطراف میں داتا دربار یا عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی طرح دکانیں موجود ہیں جن میں روایتی اشیا فروخت کی جا رہی ہیں چھوٹے چھوٹے قہوہ خانے ہیں اور اس کے علاوہ چھوٹے ریسٹورنٹ ہیں اور بالکل اپ کو پاکستان میں لاہور گجرات ملتان یا حیدراباد کا منظر نظر ائے گا ہاں سہون شریف کو تو میں بھول گیا بالکل سیہون شریف جیسا منظر ہوگا
مسجد امام حسین سے بہت ہی قریب سے سڑک کراس کر کے جامع
مسجد الازہر ہے جو اسلامی دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ الازہر کا ایک حصہ ہے یہاں پر کوئی روحانی تسکین کا سلسلہ تو نہیں ہے تا ہم ایک بہت بڑی مسجد اور اس میں مختلف مدرسے دیکھ کر اسلام کی تعلیمات کا فروغ نظر اتا ہے مصر میں ازاد معاشرہ ہے جس نے برقع پہننا ہے برقع پہنیں جسے بالکل جدید جینز اور اسکرٹ پہنا ہے اس پہ بھی کوئی پابندی نہیں ہے اس کے باوجود یہاں کے مسلمانوں میں مذہب کی طرف لگاؤ نظر اتا ہے
مسجد الاظہر میں سینکڑوں خواتین اپنی شیخ خواتین کی تقریریں سن رہی ہوتی ہیں وہ یقینی طور پر پاکستان کی طرح یوٹیوبر مولوی یا مولوی نما خواتین نہیں ہوں گی اور یقینا ان کو صحیح راستے کا درس دے رہی ہوں گی اس کا مجھے اندازہ ہوتا ہے
یہ علاقہ بھی بہت پرانا رہا ہے جب یہاں باہر نکلو تو وہ بالکل ہمیں لاہور کے اندرون کی طرح تنگ گلیاں اور گوشت کی دوکانیں روٹیاں نان بائی شور شرابا سائیکل سوار اور چھوٹے ٹرک چلتے ہوئے نظر اتے ہیں
دوپہر کے وقت یہاں پر بالکل داتا دربار لاہور کے سامنے والی سڑک کی طرح کا رش ہوتا ہے ٹیکسی ملنا بے حد مشکل ہوتا ہے بسوں کا پتہ نہیں چلتا
عربی زبان سے ناواقف لوگوں کے لیے بہت ہی مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ عربی کے علاوہ کوئی لفظ نہیں جانتے حتی کہ گنتی کے الفاظ بھی ان کو نہیں معلوم
یہاں ساتھ ہی مشہور بازار الخلیل بھی ہے جہاں ہر وقت کھوے سے کھوا اچھل رہا ہوتا ہے ، تنگ بازار ہے اس کو اپ حیدر آباد کے شاہی بازار یا لاہور کہ رنگ محل بازار کراچی کی بوری بازار کی گلیاں یا لیاقت اباد جیسا بازار سمجھیں ۔ فارنرز یعنی غیر ملکی یھاں اتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ چند میٹر چلنے کے بعد واپس ہو جاتے ہوں گے کیونکہ اگے ان کی مرضی کا سامان نہیں بلکہ قاہرہ کی عوام کی مرضی کا سامان بک رہا ہوتا ہے ظاہر ہے ان کے کپڑے لحاف چادریں کھلونے بچوں کے ملبوسات اور ایسی چیزیں جو گھریلو استعمال کے لیے ہوتی ہیں یہاں پر نظر اتی ہیں اور اسی لیے اتنا رش ہوتا ہے کہ ناقابل برداشت ہے
قاہرہ کی فضا میں بھی ایک دھول اور مٹی رچی بسی نظر اتی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ریگستان کے اطراف میں واقع ہے ۔ یھاں اپارٹمنٹ سسٹم نظر اتا ہے چار منزلہ سے لیے گئے 32 35 50 منزل تک کی بلڈنیں عام ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی مرمت بروقت نہیں ہوتی ہے اور کراچی کے الکرم اسکوائر کی بلڈنگوں کی طرح ان کا رنگ و روپ ختم ہو چکا ہے اور ڈھانچے نظر اتے ہیں تاہم ایئر کنڈیشن کے نظر انے سے ایسا لگتا ہے کہ یہاں لوگ رہتے ہیں
قاہرہ میں پاکستانی یا ہندوستانی ریسٹورنٹ بہت کم ہے کہیں کہیں نظر اتے ہیں اور وہاں جانا بھی کافی مشکل ہوتا ہے کیونکہ رش کے اوقات میں بس ٹیکسی ملنا مشکل ہو جاتی ہے ہاں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قاہرہ میں بھی انڈر گراؤنڈ ٹرین موجود ہے اور یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اسلامی ملکوں میں میں نے تہران کے بعد قاہرہ میں ہی یہ چیز دیکھی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قاہرہ کا سول حکومت کا نظام بہترین ہے ۔لوگ اب التحریر سکوائر کے انقلاب کو بھول جانا چاہتے ہیں میں کیوں بتاؤں کہ یہاں کے لوگ حسنی مبارک کو یاد کر رہے ہیں
























Post your comments