class="wp-singular post-template-default single single-post postid-17117 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

سیاسی کلہاڑے اور عوامی درخت تحریر: نجیم شاہ

درختوں نے ووٹ کلہاڑے کو دے دیا، کیونکہ دستہ اُن کی برادری کا تھا۔ یہ جملہ نہیں، ایک ایسا نوحہ ہے جو نسلوں سے ہمارے اجتماعی شعور پر ماتم کر رہا ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو ہر بار اپنی جڑیں خود کاٹتی ہے، صرف اِس لیے کہ کلہاڑے کا دستہ ’’اپنوں‘‘ میں سے ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کون ہمیں اُجاڑ رہا ہے، ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ اُجاڑنے والا ہمارے قبیلے، ہمارے مسلک، ہمارے علاقہ یا ہماری برادری سے ہے۔

پاکستان کی سیاست انہی کلہاڑوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر الیکشن میں وہی چہرے، وہی نعرے، وہی وعدے، اور وہی دھوکے ہوتے ہیں۔ ہم بار بار انہی کو ووٹ دیتے ہیں، اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ سایہ کیوں ختم ہو گیا، ہَوا کیوں رُک گئی، اور پرندے کیوں ہجرت کر گئے۔ ہم نے ووٹ کو عبادت نہیں، عقیدت بنا دیا ہے۔ اور عقیدت جب اندھی ہو جائے تو قومیں صرف لاشیں بنتی ہیں، زندہ نہیں رہتیں۔

جمہوریت ہمارے ہاں ایک ایسا تماشا ہے جس میں تماشائی بھی ہم ، مداری بھی ہم، اور بندر بھی ہم ہیں۔ پارلیمنٹ ایک منڈی ہے، جہاں ضمیر کی بولی لگتی ہے۔ وزارتیں کارکردگی پر نہیں، خوشامد پر دی جاتی ہیں۔ قانون طاقتور کے حق میں لکھا جاتا ہے، اور کمزور کے خلاف نافذ ہوتا ہے۔ بیوروکریسی عوام کی خدمت نہیں، حکمرانوں کی غلامی کرتی ہے۔ پولیس تحفظ نہیں دیتی، دھونس دیتی ہے۔ عدلیہ انصاف نہیں دیتی، تاریخیں دیتی ہے۔

نظامِ حکومت کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ آئین کتابوں میں دفن ہے، اور قانون فائلوں میں قید۔ عوام کو صرف نعرے دیئے جاتے ہیں، وعدے دیئے جاتے ہیں، اور پھر انہی وعدوں کا زہر اُن کے زخموں پر چھڑکا جاتا ہے۔ ہم نے شعور کو دفن کر دیا ہے، سوال کرنا چھوڑ دیا ہے، سوچنا گناہ سمجھ لیا ہے، اور اختلاف کو بغاوت بنا دیا ہے۔ یہی وہ ناسور ہے جو ہر اُمید کو چاٹ رہا ہے، ہر خواب کو نگل رہا ہے، اور ہر نسل کو مایوسی کے اندھے کنویں میں دھکیل رہا ہے۔

انتخابات ہمارے ہاں ضمیر کی آواز نہیں، برادری کا اعلان بن چکے ہیں۔ ہم نے ووٹ کو ذاتی مفاد، رشتہ داری، اور تعصب کے ترازو میں تولنا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بار وہی چہرے، وہی دھوکے، اور وہی بربادی ہمارے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ کلہاڑا، کلہاڑا ہی ہوتا ہے، چاہے اُس کا دستہ سونے کا ہو یا ’’اپنوں‘‘ میں سے۔ اُس کی فطرت کاٹنا ہے، اُجاڑنا ہے، اور ہم ہر بار اسی بربادی کو اپنی خوش فہمیوں کا لبادہ اوڑھا کر گلے لگا لیتے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ ہم درخت بننے سے انکار کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم کلہاڑے کو پہچانیں، چاہے اُس کا دستہ ’’اپنا‘‘ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وقت ہے کہ ہم ووٹ کو عبادت سمجھیں، تجارت نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم سوال کریں، سوچیں، اور فیصلہ کریں — عقل سے، ضمیر سے، اور سچائی سے۔ جب تک ہم ’’اپنے‘‘ اور ’’غیر‘‘ کے اس زہریلے فرق سے باہر نہیں نکلیں گے، تب تک ہر نیا دِن ایک نیا کلہاڑا لے کر آئے گا، اور ہم یونہی کٹتے رہیں گے۔

ورنہ چنگل یونہی اُجڑتا رہے گا۔ درخت یونہی گرتے رہیں گے۔ سایہ ختم ہوتا رہے گا۔ ہَوا رُکتی رہے گی۔ پرندے ہجرت کرتے رہیں گے۔ اور ہم؟ ہم تالیاں بجاتے رہیں گے، نعرے لگاتے رہیں گے، اور پھر حیران ہوں گے کہ بربادی کیوں مقدر بن گئی۔ کیونکہ ہم نے کلہاڑے کو ووٹ دیا تھا… صرف اِس لیے کہ دستہ ’’اپنا‘‘ تھا۔

5 attachment  •  Scanned by Gmail

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter